پہلا صفحہ
زندگی نامہ
تالیفات
توضيح المسائل
پيغام
فرزند ارجمند کي تالیفات
تصاوير
هم سے رابطه كيجئے
مرتبط سائٹس
مناسبات
مقالات
 

حضرت آیت اللہ العظمی الحاج محمد فاضل لنکرانی(دامت برکاتہ) کے مختصر حالات زندگی

ولادت

آپ 1310 ھجری ‎‎شمشی کو اسلامی جمہوریہ کے مقدس شہر قم میں پیدا ہوۓ- آپ کے والد گرامی حضرت آیت اللہ فاضل(قدس سرہ) حوزۂ علمیہ قم کے بزرگ عالم اور استاد العلما‍‌ء تھے- والدۂ گرامی ایک معروف گھرانے رضوی المعروف سادات مبرقع سے تعلق رکھتی تھیں-

علمی قابلیت

آپ نے صرف تیرہ برس کی عمر میں ابتدائ تعلیم مکمل کی اور اعلی اسلامی علوم کے حصول کی خاطر حوزۂ علمیہ قم سے منسلک ہو گیے- آپ غیر معمولی ذہنی صلاہیتوں کی وجہ سے صرف جھہ سال کی مختصر مدت میں"مقدماتی اور سطح" جیسے دقیق کورسز مکمل کرنے میں کامیاب ہو ۓ اور صرف انیس برس کی عمرمیں حضرت آیت اللہ العظمی بروحردی(علیہ الرحمہ) کے درس خارج(فقہ و اصول استدلالی) میں شریک ہوۓ- کم سنی میں غیر معمولی فہم و فراست کے سبب طلبہ اور برزگ علما‎ء میں جلد ہی مقبول ہوگۓ- اعلی تعلیم حاصل کرتے وقت امام خمینی کے فرزند آیت اللہ سہید مصطفی خمینی آپ کے ساتھیوں میں سے تھے-

اساتذہ کرام

آپ گیارہ برس تک حضرت آیت اللہ العظمی آقاۓ بروجردی(علیہ الرحمہ) کے درج خارج فقہ و اصول سے وابستہ رہے- 9 سال آیت اللہ العظمی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے درس خارج میں شرکت کی- اس طرح ان دو عظیم علمی ہستیوں کے علم و حکمت سے بھر پور دروس سے کسب فیض کی- اور اس عظیم المرتبت عالم دین سے خاطر خواہ استفادہ کیا- بھترین استعداد اور مسلسل محنت اس بات کا سبب قرار پائ کہ آپ صرف پچیس سال کی عمر میں درجۂاجتھاد پر فائز ہو گۓ- یہ اعلی مقام آپ کو استاد عظیم الشان آیت اللہ بروجردی(رحمت اللہ علیہ) کی تائید سے حاصل ہوا-

تدریسی فرائض

آپ برسہا برس حوزۂ علمیہ قم میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والے بے شمار دینی طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے  رہے اور پجیس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے آپ کو درس خارج فقہ و  اصول کی تعلیم دیتے ہوۓ- آپ کے درس خارج میں حوزۂ علمیہ قم کے سات سو سے زائد علماء و فضلاء شرکت کرتے ہیں- کئ سال سے آپ کے درس خارج فقہ کو اسلامی جمہوریہ ایران کی بین الاقوامی سروس سے ٹیلی کاسٹ کیا جا رہا ہے- جس کے سبب ایران اور بیرونی دنیا میں لا تعداد فاضل افراد آپ کی علمی توانائیوں سے بھرپور استفادہ کر رہے ہیں-

پہلوی حکومت کے خلاف آپ کی سیاسی جد و جہد

حضرت امام خمینی نے شاہ کی منحوس طاغوتی حکومت کے ہولناک مظالم کے خلاف صدا‎ۓ حق بلند کی تو آپ نے اسلامی تحریک کا بھرپور ساتھ دیا-  آپ اسلامی انقلاب کے قیام کی جد وجہد میں مجاہدین اسلام اور انقلاب کے حامیوں کے دوش بدوش جہد مسلسل میں برابر شریک رہے اور انقلاب اسلامی کے قیام ميں مرکزی کردار ادا کیا- آپ حوزۂ علمیہ کے بزرگ علماء کا اعلی تنظیمی ادارہ"جامعہ مدرسسین حوزۂ علمیہ قم" کے ایک اہم رکن رہے- اسلامی انقلاب کی تحریک کو آگے بڑھانے اور امت مسلمہ کی بیداری نیز حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی مرجعیت اور مدبرانہ قیادت کی مکمل حمایت کے اظہار کے لیے بے شمار بیانات اور حمایتی اعلامۓ جاری کرتے رہے- آپ کی کاوشیں دشمن کی نظر میں مسلسل کٹھکتی رہیں لہذا پہلوی حکومت کی حفیہ پولیس"ساواک" کے آلہء کار تفتیش کے نام پر آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دینے لگے لیکن آپ نے اپنی انقلاب سرگرمیاں مزید تیز کر دیں- جس کے سبب آپ کو بندرلنگہ کے دور افتادہ مقام پر شہر بدر کر دیا گیا- چار ماہ کے بعد آپ کو ڈھائ سال تک شہر یزد میں شہر بدری کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا- اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد آپ اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی(رحمہ اللہ علیہ) کے ایک طاقتور حامی و مددگار کی حی‍‌ثیت سے سرگرم عمل رہے- آپ کی رحلت کے بعد اب رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی کے بڑے حامیوں ميں سے ایک ہیں-

اہل بیت عصمت و طہارت سے خاص لگاؤ

قدیم ‌زمانہ سے آپ کا خاندان اہل بیت عصمت و طہارت علیھم السلام کے خاص عقیدت مندوں میں شمار ہوتا  آ رہا ہے- سال بھر آپ کے یہاں عزادارئ سید الشھداء علیہ السلام کا سلسلہ جاری رہتا ہے- ہر جمعہ کو نیز ولادت و شہادت معصومین علیھم السلام کے ایام کی مناسبت سے آپ کے آبائ مکان پر مجلس عزاداری و محافل میلاد منعقد ہوتی ہیں-

امام جماعت کے فرائض

اہل بیت اطہار علیھم السلام سے بے حد عشق و محبت کی وجہ سے آپ کو یہ بھی شرف حاصل رہا کہ مقدس شہر قم میں ذاکرین و واعظین کے ایک اہم مرکز یعنی امام بارگاہ آقا سید حسن ميں امام جماعت کے فرائض کئ برس تک انجام دیتے رہے- حضرت آیت اللہ سید شہاب الدین مرعشی نجفی(علیہ الرحمہ) کی رحلت کے بعد قم کس عوا م اور دینی طلبہ کی بر زور اپیل پر اور آستانہ عالیہ حرم مطھر حضرت بی بی معصومہ قم سلام اللہ علیہا کے متولی کی تحریری درخواست پر آپ نے اس مقدس مقام پر امام جماعت کی ذمہ داری قبول کی لہذا ہزاروں علماء و طلاب اور زائرین مرقد دختر امام ھفتم سلام اللہ علیہا آپ کی اقتداء میں نماز جماعت ادا کرتے ہیں-

مرجعیت کا اعلی مقام

حضرت امام خمینی کی جانگداز رحلت کے بعد بہت سے مومنین نے تقلید کے مسئلے میں آپ سے رجوع کیا  اور حضرت آیت اللہ اراکی رحمہ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد جامعہ مدرسین حوزۂ علمیہ قم نے باقاعدہ طور پر بزرگ مراجع عظام میں پہلے فرد کی حیٹثیت سےآپکا تعارف امت مسلمہ سے کرایا-

تالیفت

طلاب علوم دینی کی تعلیم و تربیت کے ساتھ آپ نے بہت سی یادگار کتابیں بھی تحریر فرمائ ہیں جن میں سے چند کے نام ذیل میں تحریر کیے جا رہے ہیں-
1- ''کتاب تفصیل الشریعہ''(عربی)
یہ تحریر الوسیلہ امام خمینی کی شرح ہے حس کی 13 جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں-
2- حاشیہ بر کتاب عروۃ الوثقی(عربی)
3- نہایۃ التقریر(عربی)
آیت اللہ بروجردی کے نماز سے متعلق دروس پر مبنی ہے-(2 جلدیں)
4- کتاب الطھارۃمصباح الفقیہ محقق ہمدانی(عربی)
5- شرح فروع"الاجتھاد و التقلید'' از کتاب عروۃ الوثقی(عربی)
6- کتاب الصوم(عربی)
7- کتاب القضاء(عربی)
8- المسائل المستحدثۃ(عربی)
9- رسالہ ای در حکم نماز در لباس مشکوک(عربی)
10- رسالہ ای در خلل حج و عمرہ(عربی)
11- الاحکام الواضحۃ(فتاوی عربی)
12- احکام الحجج، حاشیہ بر کتاب حج تحریر الوسیلۃ(عربی)
13- القواعد الفقیہ(عربی)
14- تقریرات الاصول- تقریرات درسی امام خمینی 5 جلدیں(عربی)
15- بتیان الاصول تقریرات درسی معظم لہ- 4 جلدیں(عربی)
16- تقریرات الاصول، تقریرات درسی آیت اللہ بروجردی(عربی)
17- رسالہ ای در قاعدۂ فراغ و تجاوز(عربی)
18- آپ کے تقریرات درس خارج اصول 8 جلدیں(فارسی)
19- رسالہ توضیح المسائل(فارسی، اردو)
20- مناسک حج(فارسی)
21- مدخل التفسیر در علوم قرآن(عربی)
22- تفسیر سورۂ حمد(عربی)
23- تقیہ مداراتی(فارسی)
24- آئین کشورداری از دیدگاہ امام علی علیہ السلام
25- عصمت انبیاء
26- مجمع الفہارس مجموعہ فہرستہاۓ بحار الانوار، الغدیروالمیزان
27- اہل بیت یا چہرھای درخشان در آیۃ التطھیر
28- آئمۂ اطھار(عربی) یا پاسداران وحی در قرآن کریم(اس کتاب کو آیت اللہ اشراقی کے ساتھ مل کر تحریر کیا)
29- مناسک الحجج
30- استفتاءات حول الحج
31- جامع المسا‏ئل(مجموعہ ای از استفتاءات)

بسم الله الرّحمن الرّحيم

مرجعيّت کا موضوع ان اهم موضوعات مين سے هے که جو مسلمانوں کے مصالح اور انکے استقلال

اورعظمت سے جدا نهيں هے اورا ن موضوعات ميں سے هے که جسکي بررسي اسلام کے خلاف کا فروں

اور استکبار کي سازشوں کي طر ف توجّه کيے بغيرناممکن هے ۔اسليے جامعه مدرّسين حوزه‘علميّه قم نے

مختلف جلسات ميں اس موضوع پر بحث کي يهاں تک که جمعه کے دن مطابق۱۔۹۔۳۷

اس نتيجه پر پهونچے که جن افراد کا نام نيچے ذکرهے انکے اندر مرجعيّت کے تمام شرائط موجود هيں

اور ان ميں سے هر ايک کي تقليد جائز هے ۔(والله العالم )

۱۔حضرت آيت الله حاج شيخ محمّدفاضل لنکراني ۔

۲۔ حضرت آيت الله حاج شيخ محمّد تقي بهجت دامت برکاته

۳۔حضرت آيت الله حاج سيّد علي خامنه اي(مقام معظم رهبري)

۴۔حضرت آيت الله حاج شيخ حسن وحيدخراساني

۵۔حضرت آيت الله حاج شيخ جواد تبريزي

۶۔حضرت آيت الله حاج شيخ سيّدموسيٰ شبيري زنجاني

۷ ۔حضرت آيت الله حاج شيخ ناصرمکارم شيرازي (دامت برکاتهم)

حضرت آيت الله حاج شيخ فاضل لنکراني کے بارے ميں حوزه علميه کے بزرگ اور برجسته علماءکا نظريه ۔

1. مرحوم آيةالله العظيٰ بروجردي نے جب انکي کتاب نهايةالتقرير کے جونماز کے بارے مين هيں

کو لکھا تب انھوں نے صراحت کے ساتھ ۵۲سال کي عمر ميں انکے درجه اجتھاد پر فائز هو نے کا اعلان کر ديا ۔

۲۔ مرحوم آيةالله العظميٰ سيد مصطفي خوانسازي کے جو خود بھي حوزه کے بزرگ علماءميں سے تھے

انھوں نے آيةالله العظميٰ گلپائيگاني کي زندگي کے آخري لمحات ميں انکے مرجع هونے کو بيان کر

ديا تھااورسبھي بزرگ علماءنے تقليد کے مسئله ميں انکي طرف رجوع کرنے کو کها۔

۳۔ مرحوم آيت الله تقديري که جو حوزه علميه ولي عصر ميں فقه اور اصول کا درس خارج کهتے تھے

مرحوم کي اعلميّت کے معتقد تھے ۔

۴۔آيةالله آقاي طاهري که جو اس وقت بھي تبريز کے بزرگ علما ءميں سے هيں اور آيةالله بروجردي

کے شاگردوں ميں سے تھے مرحوم کي اعلميت کے معتقد تھے ۔

۵۔داکٹرسيد عبدالهادي الفضلي که جو حجاز کے بزرگ علما ءميں سے هيں انکي اعلميت کے معتقد تھے۔

۶۔خود مرحوم کي علمي اور استدلالي کتابيں اس بات پر گواه هيں ۔انکي کتاب موسوعه فقهيه که جو امام

خميني(ره)کي کتاب تحريرالوسيله کي شرح هے بھي اس بات پر دليل هے اور اسکي ۶۲جلدوں سے

چاپ هو چکي هيں اور حوزه علميه کي اهم کتابوں ميں سے هے ۔

کے شاگردوں ميں سے تھے مرحوم کي اعلميت کے معتقد تھے ۔

۵۔داکٹرسيد عبدالهادي الفضلي که جو حجاز کے بزرگ علما ءميں سے هيں انکي اعلميت کے معتقد تھے۔

۶۔خود مرحوم کي علمي اور استدلالي کتابيں اس بات پر گواه هيں ۔انکي کتاب موسوعه فقهيه که جو امام

خميني(ره)کي کتاب تحريرالوسيله کي شرح هے بھي اس بات پر دليل هے اور اسکي ۶۲جلدوں سے

چاپ هو چکي هيں اور حوزه علميه کي اهم کتابوں ميں سے هے ۔