پہلا صفحہ
زندگی نامہ
تالیفات
توضيح المسائل
پيغام
فرزند ارجمند کي تالیفات
تصاوير
هم سے رابطه كيجئے
مرتبط سائٹس
مناسبات
مقالات
 

بسم اللہ الرحمن الرّحیم

سیّد الشھداء حضرت امام حسین اورانکی اولاد اور اصحاب کے چہلم کے موقع پر میں تمام آزاد انسانوں خاص طور سے شیعیوں اور انکے پیرو کاروں کی خدمت میں تسلیت عرض کرتا ہوں ۔اسی مناسبت سے جتنا ممکن ہو سکے کچھ مطالب اگر چہ کم اس مقالہ میں قلم بند کیے جارہے ہیں اس امید کے ساتھ

کہ خداونداس دنیا میں امام حسین علیه السلام کے روضہ کی زیارت سے مشر ّف اور آخرت میں انکی شفاعت

عطا کرے اگر امام اس کو قبول کریں ۔

جیسا کہ تاریخ سے ملتا ہے واقعہ عاشورہ سے پہلے چہلم کو جسطرح آجکل مناتے ہیں، شاید یا

تو اسکا اصلاًوجود ہی نہیں تھا یا اگر چہلم کو مناتے بھی تھے تو وہ امام حسین ع کے چہلم کی طرح نہیں تھا ۔

اس سے پہلے کہ اس موضوع پر بات کی جائے ایک روایت کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ۔امام حسن

عسکری علیہ السلام نے پانچ چیزوں کو مومن کی علامت قرار دیا ہے ۱۔انگوٹھی پہننا۲۔اکیاون رکعت

نماز پڑہنا کہ جو مستحب اور واجب نمازوں کا مجموعہ ہے ۳۔نما ز اور سجدہ کی حالت میں پیشانی کا

مٹی پر رکھنا۴۔نماز میں بسم اللہ الرحمن الرّحیم کا اونچی آواز سے پڑہنا۵۔زیارت اربعین۔

چہلم سے مراد کیا ہے علماءنے اس موضوع پر کافی بحث کی ہے لیکن جس بات کا شیخ طوسی نے

استخراج کیا ہے کہ زیارت اربعین سے مراد ۰۲صفر کو امام حسین علیه السلام کی زیارت ہے کہ جو عاشورہ کے بعد

چالیسواں دن ہے اس لئے اس بزرگوار نے اس روایت کو تہذیب کے زیارت کے باب میں اور اربعین کے اعمال میں ذکر کیا ہے اور اس دن کی مخصوص زیارت بھی نقل ہوئی ہے کہ مرحوم محدث بزرگ

قمی نے مفاتیح الجنان میں ذکر کیا ہے ۔ لیکن چالیس دن کے بعد ہی کیوں ؟کہنا چاہیے کہ عدد چالیس

روایات میں حتیّ قرآن میں بھی اسکا خاص مقام ہے اور عدد چہل اسکی کچھ خصوصیات ہیں کہ جو دوسرے

اعداد کے اندر نہیں ہیں ۔ مثال کے طور پر خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے

اذابلغ اشدّہ وبلغ اربعین سنة(احقاف ۵۱)

یعنی جس وقت وہ کمال کی حالت تک پہنچااور چالیس سال کا ہو گیا۔

اسی طرح بعض انبیاءچالیس سال کی عمر میں مقام رسالت پر فائزہوے مثال کے طور پر حضرت علی ع نے ایک ادمی کو جوا ب میں جب اس نے سوال کیا کہ عزیر کتنی سال کی عمر میں رسالت کے مقام پر فائز ہوے بعثہ اللہ و لہ اربعون سنة(بحارالانوار،ج۱ص۸۸ح۷)

یعنی اس سوال کے جواب میں کی جناب عزیر کی عمر رسالت کے آغاز میں کتنی تھی اسکے جواب میں

فرمایاکہ رسالت کے آغاز میں انکی عمر چالیس تھی۔اور خود نبی اکرم علیه السلام بھی چالیس سال کی عمر

میں مقام رسالت پر فائز ہوے جیسا کہ معتبر روایات میں آیا ہے

صدع بالرسالةیوم السابع والعشرین من رجب و لہ یومئذاربعون سنة(بحار الانوار ج۵۱ص۸۸۲ح۵۲

یعنی حضرت محمّدبن عبداللہ خاتم انبیاء ص۷۲رجب کو چالیس سال کی عمر میں رسالت پر

مبعوث ہوے ۔اسی طرح دعاوںمین اور بعض دینی معارف میں عددد چالیس کا ایک خاص مقام

ہے مرحوم علاّمہ مجلسی اس دعا کو نقل کرنے کے بعد کہ جس میں خدا کے نام ہیں یوں نقل کرتے ہیں

عن النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم (لو دعا بہا رجل اربعین لیلة جمعةغفراللہ لہ(بحار الانوارج۵۹ص۶۸۳ ح۶۲)

اگر کوئی شخص چالیس جمعرات کو خداوند متعال کی بارگاہ اس دعا کو پڑہے خدا اسکو بخش دے گا۔

خدا کو یاد کرنا مخصوص اذکار کے ساتھ اور عدد چالیس کے ساتھ اسکی بہت زیادی سفارش کی گئی ہے ۔

جسطرح کہ رات کو جاگنا اور نما ز کا پڑہنا لگا تار چالیس رات تک اور نماز وتر کی قنوت میں

استغفار کرنا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ خداوندمتعال انسان کو جملہ سحر میں استغفارکرنے والے

لوگوں کے ساتھ شمار کرے اور خداوند نے قرآن میں انکو نیکی سے یاد کیا ہے ۔

ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ انحضرت نے فرمایا لا یجتمع اربعون رجلاًفی امر واحدالّااستجاب اللہ (بحارالانوارج۳۹ص۴۹۳ح۶)یعنی چالیس مسلمان جمع نہیں ہوتے خدا سے کسی چیز کا چاہنے میں مگر یہ کہ خداوند متعال اسکو قبول کرتا ہے ۔

ایک دوسری روایت میں وارد ہوا ہے کہ پیامبر اکرم (ص) سے منقول ہے کہ آ نحضرت نے

فرمایا من اخلص العبادة للہ اربعین صباحاًجرت ینابیع الحکمةمن قلبہ علیٰ لسانہ (بحارالانوارج۳۵ص۶۲۳ح۰۲) یعنی اگر کوئی شخص چالیس دن اپنی

عبادت صرف اور صر ف خدا کیلئے انجام دے اور اسکا عمل خالص ہو تو خداوند حکمت کے چشمہ

اسکے دل سے زبان پر جاری کر دیگا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ امام نے فرمایا

من حفظ من شیعتنا اربعین حدیثاً بعثہ اللہ یوم القیامة عالماًفقیہاًو لم یعذّب(بحارالانوارج۲ص۳۵۱ح۱)

ہمارے شیعیوں میں سے اگر کوئی چالیس حدیثوں کو حفظ کرے خداوند متعال اسکو قیامت کے دن

عالم دانشمند اور فقیہ محشور کرے گا۔البتہ اس بات کیطرف توجہ رکھنا ضروری ہے کہ احادیث کو حفظ

کرنے سے مرادصرف عبارات ہی کو حفظ کرنا نہیں ہے بلکہ جو چیز طلب کی گئی ہے کہ حدیث کو اسکے پورے ابعاد کیساتھ حفط کرناہے اور حقیقت میں وہ حدیث کا سمجھنا اور اس پر عمل کرنا اور اسکا رائج

کرنا ہے ۔

اسی طرح روایات میں وارد ہوا ہے کہ انسان کی عقل چالیس سال میں کامل ہوتی ہے ۔

امام جعفر صادق علیه السلام ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ اپ نے فرمایا،اذا بلغ العبداربعین سنة فقدانتھی منتھاہ(بحارالانوارج۶ص۰۲۱ح۷)

شاید حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جب انسان چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اسکی عقل کامل ہو جاتی ہے ۔

اسی طرح نماز جماعت کو برپا کرنا اور اسمیں شرکت کی سفارش چالیس دن تک بھی اس بات کی طرف

اشارہ کرتی ہے ۔ نبی اکرم علیه السلام سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے ،من صلّی اربعین یوماًفی الجماعة یدرک تکبیرة الاولیٰ کتب اللہ براءتان :براءةمن النار و براءةمن النفاق(بحار۔۔۔ج۸۸ص۴ح۵)

یعنی وہ شخص جومرتب ابتداءسے نماز جماعت میں شرکت کرے خداوند اسکو دو چیزوںسے محفوظ

رکھے گا ایک آتش جہنم دوسرے نفاق اور دوروئی سے ۔

آداب دعا میں آیا ہے کہ ا گر آپ چاہتے ہیں کہ اپکی دعا قبول ہو جائے تو پہلے چالیس مومنوں کیلئے

دعا کریں اور اسکے بعد خدا سے اپنی حاجت طلب کر یں ۔من قدّم اربعین من المومنین ثمّ دعااستجیب لہ (بحار۔۔ج۶۸ص۲۱۲)

اس روایت میں امام جعفر صادق (ع )نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے دعا کرنے پہلے دوسرے

مومنوں کیلئے دعا کرنا چاہیے۔

اور روایات میں پڑوسیوں اور انکے حقوق کے بارے میں فرمایا ہے کہ پڑوسی چالیس گھر تک شامل

ہوتا ہے یعنی جہاں وہ رہتا ہے اس سے ہر طرف سے چالیس گھر تک ۔

امام علی علیه السلام نے ایک حدیث میں فرمایا،الجوار اربعون داراًمن اربعة جوانبھا (بحار۔۔ج۴۸ص۳ح۳)

پڑوسی گھر کے ہر طرف سے چالیس گھر تک شامل ہو تا ہے ۔

اور اسی طرح پیامبر اکرم (ص) سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے ،انّ السماءولارض لتبکی علی المومن اذامات اربعین صباحاًو انّما تبکی علیٰ العالم اذا مات اربعین ھراً(بحار۔۔ج۲۴ص۸۰۳ح۳۱)

پیامبر اکرم (ص) نے فرمایا جس وقت ایک مومن دنیا سے رحلت کرتا ہے زمین اور اسمان چالیس

دن تک اسکے لئے گریہ کرتے ہیں اور اگر کوئی مومن عالم اس دنیا سے رحلت کر جائے تو زمین اور

آسمان اسکے فراق میں چالیس ماہ روتے رہتے ہیں ۔

البتہ ہم جانتے ہیں انسان کامل اور واقعی مومن اور عالم کا مصداق ائمّہ اطھار علیھم السلام ہیں ۔

امیر المومنین حضرت علی علیه السلام فرماتے ہیں ،اذا صلیٰ علی المومن اربعون رجلاًمن المومنین واجتھدوا فی الدّعاءلہ استجیب لھم (بحار۔۔ج۱۸ص۴۷۳ح۴۲)

یعنی جس وقت مومنوں میں سے چالیس آدمی کسی مومن کے جنازہ پر نماز پڑہیں اور اسکے لیے دعاکریں تو خداوند ان چالیس آدمیوں کی دعا قبول کرتا ہے ۔

یہ ان روایات کا خلاصہ تھا کہ جن میں عدد چالیس کا ذکر ہوا ہے قارئین کرام سے گزارش ہے

روایات اور انکے مضامین پر غور کریں اور نمونہ عمل قرار دیں ۔

جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکاہے واقعی مومن ،اور عالم کا مصداق رسول اکرم (ص) دوسرے انبیاءاور

آئمّہ طاہرین ہیں کہ زمین اوراسمان چالیس مہینے انکے فراق میں گریہ کرتے ہیں خاص طور سے امام حسین علیه السلام کی شہادت ایک بہت بڑی مصیبت ہے اور انکی شہادت اسقدر جانگداز ہے کہ روایات کے مطابق ہمیشہ رونا چاہیے۔

اس لحاظ سے ایک روایت کہ جس کو محدّث قمی نے منتھی الامال میں ذکر کیا ہے کہ حضرت امام

رضا علیه السلام نے ریّان بن شبیب سے کہا ،ای شبیب کے بیٹے اگر کسی چیز پر رونا چاہتے ہو تو

تو میرے جدّکی مصیبت پر گریہ کروکہ جس کو پیاسا شہید کیا گیا ،ایک اور رویت مین وارد ہواہے

وہ شخص جو خود روئے اور اور دوسروں کو رلائے یا رونے والوں جیسی حالت بنائے تو جنّت اس پر واجب ہو جائے گی ،

یہ بات واضح ہے کہ کہ یہ ساری چیزیں اس وقت ہیں جب رونا معرفت اور اسکے دستورات کی پیروی کے ساتھ ہو ،اور ہمیں چاہیے کہ کربلا کے ہدف اور مقصد کو درک کریں اگر چہ خود رونا اس بات کا

سبب بنتا ہے کہ انسان امام علیه السلام کی معرفت حاصل کرے ،اس لئے کہ اگر امام حسین ع قیام نہ کرتے

تو اسلام ختم ہو جاتا اور اسکا کوئی اثر باقی نہ رہتا ۔اور یہ ایسی بات صرف جسکا ادّعا ہم نہیں کرتے ہیں

بلکہ مورّخوں حتّی وہ جو شیعہ نہیں ہیں وہ بھی اس بات کے معترف ہیں ۔

اور جو بھی قیام ظلم اور ستم کے مقابلہ میں ہوا ہے اس نے امام حسین کے قیام سے الہام لیا ہے۔

حتی گاندی جو ہندوستان کی آزادی کی رہبر تھے انھوں نے دنیا کو بتادیا کہ ہماری یہ حرکت اور نہضت

اور ہماری یہ جنگ امام حسین علیه السلام کہ جنگ سے تاثیر پزیر ہے ۔

سچ میں یہ محرم اور سفر کا مہینہ ہے کہ جس نے عاشورہ کے فرہنگ کو لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھا

اور اس بات کا باعث بنا کہ جمہوری اسلامی ایران میں اسلامی انقلاب برپاہو ۔

آج صہینیوں کے مقابلہ میں صرف اور صرف لبنان کے جنوب میں حزب اللہ ہے جو کامیاب ہے

ہمارے شیعیوں میں سے کچھ نے اپنی قربانی دیکر مسلمانوں کے سربلند کیا ہے

اس بناءپر یہ قیام اسلام کی بقاءکا سبب بنا ہے اور یہ قیامت تک کیلئے ہے ۔

اور ان میں سے ایک اربعین حسینی ہے کہ جو صفرکی ۰۲ تاریخ ہے جو قیام عاشورہ کے چالیس دن بعد ہے

چہلم شیعہ فرہنگ میں

شیعیوں کے فرہنگ میں اربعین سے مراد امام حسین علیه السلام کی شہادت کے بعد چالیسواں دن ہے ۔

کہ جو حقیقت میں صفرالمظفر کی ۰۲ تاریخ ہے ۔

اور آج بھی مسلمان اپنے اباءو اجدادکا چہلم مناتے ہیں اور اس دن صدقہ دیتے اور مجلس مناتے

ہیں ،

اس بات میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا امام حسین علیه السلام کے گھر والے پہلا چہلم منانے اور اپنے

رشتہ داروں کی زیارت کرنے کربلاآئے ہیں ےا یہ کہ دوسرے سالوں میں آئے ہیں ۔

ہم اس مقالہ میں اس بارے ہم بحث نہیں کریں گے ۔

لیکن مرحوم شہید محراب آیةاللہ قاضی طباطبائی تبریز کے امام جمعہ نے چہلم لے سلسلہ میں تحقیق

کرتے ہوے ایک کتاب لکھی ہے کہ جسکا موضوع چہلم کے بارے میں تحقیق ہے قارئین کرام

زیادہ وضاحت کیلئے اس کتاب کی طرف رجوع کر سکتے ہیں ۔

اس روز کے مسلّم واقعات میں سے یہ ہے کہ صفر کا بیسواں دن کہ جو امام حسین ع کا چہلم کا دن ہے

اس دن جابربن عبداللہ انصاری کہ جو رسول خدا کے صحابی ہیں مدینہ منوّرہ سے امام حسین ع کی زیارت

کیلئے کربلا آے ہیں ،اور بعض روایات کے مطابق جابر نے فرات کے پانی سے غسل کرنے بعد

غم اور اندوہ کہ حالت میں امام حسین علیه السلام کی زیارت کیلئے روانہ ہوے ہیںایک قافلہ کی آواز سنتے

ہیں تلاش اور جستجو کرنے کے بعد اس بات کی طرف متوجہ ہوے کہ اہلبت رسول خدا ص

امام کی زیارت کیلئے کربلا آئے ہیں ۔

اس بنا ءپر ۰۲ صفر ۱۶ہجری یعنی امام حسین علیه السلام کا چہلم منانے کیلئے سب سے پہلے امام کے پہلے زائر

عنوان سے انھوں نے اپنے آپ کو کربلا پہونچایا۔

امام حسین علیه السلام کی نہضت اورحرکت کے عالمگیر ہونے میں کافی عوامل دخیل ہیں کہ جنہوں نے

عاشورہ کو دنیاوالوں کے سامنے پیش کیا ،اسیروں ،جناب زینب اور امام سجاد علیه السلام کے ظلم اور ستم

گھروں میں کوفہ شام اور امویوں کی مسجدوں میں خطبات کو پیش کر کے امام حسین علیه السلام کے قیام کو زندہ

رکھا اور اسکے ساتھ قیام توابین اور لوگوں کی بیداری غفلت کے بعد اور دوسرے کئں واقعات اس

بات کا سبب بنے ہیں کہ امام حسین علیه السلام کے قیام کی حقیقت کو لوگون کے سامنے پیش کریں

اور انھیں عوامل میں سے چہلم خود اس بات کا سبب بنا ہے کہ امام حسین علیه السلام کے قیام کی حقیت

لوگوں کیلئے واضح ہو جائے ۔اور آجکل جو انکے روضہ پہ چہلم منایا جاتا ہے اس بات پر زندہ

ثبوت ہے۔لوگ ایک بار پھر امام حسین علیه السلام کے قیام کی بررسی کرتے ہیں اور انکے مقاصد سے آشنائی

حاصل کرتے ہیں اور اس کی عظمت اور بزرگی تک پہونچتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں

اپنے اپ کوذمہ دار سمجھتے ہیں۔

چہلم صرف سال کے دنوں میں سے ایک دن نہیں ہے بلکہ لاکھوں لوگوں کی نگاہوں میں

امام حسین علیه السلام کے قیام کی تصویر کھینچ کر رکھ دیتا ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا

کہ تاریخ میں اختلاف ہے کہ کیا امام حسین علیه السلام کے گھر والے پہلا چہلم منانے کربلا آے ہیں

یا نہیں ، لیکن جو مسلم ہے وہ یہ ہیکہ عاشورہ کے شہیدوں کے مزار کی زیارت کو جابربن عبداللہ اور

عطیّہ نے انجام دیا ہے ہم یہاں پر ان دو بزرگوار کی شخصیت اور زیارت اربعین پر بات کریں گے ۔

شیخ طوسی کتاب مصباح المجتھدمیں لکھتے ہیں :صفر کا بیسواں دن وہ دن ہے کہ جابر بن عبداللہ انصاری

کہ جو رسول خدا (ص) کے صحابی ہیں مدینہ سے امام کی زیارت کیلئے کربلا آئے اور امام کے مزار کے پہلے زائر ہیں ،اس دن میں امام حسین علیه السلام کی زیارت مستحب ہے (بررسی تاریخ عاشورہ ص۴۴۲)

مرحوم شیخ طوسی کی عبارات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جابر امام حسین علیه السلام کی زیارت کے قصد

مدینہ سے نکلے ہیں اور ۰۲ صفر کو کربلا پہونچے ہیں لیکن یہ مدینہ والے کس طرح اور کیسے امام کی

شہادت سے مطلع ہوے کہ جابر اپنے اپ کو کربلا پہونچایا۔

کہنا چاہیے کہ ابن زیاد نے اہلبیت کے کوفہ پہونچنے سے پہلے ہی بدالملک بن ابی الحارث سلمی

کو حجاز روانہ کر دیا تھا تا کہ جتنا جلدی ممکن ہو سکے حاکم مدینہ عمر وبن سعد امام حسین علیه السلام اور انکے ساتھیوں کی شہادت سے با خبر ہو جائے۔اھلبیت کے کوفہ پہونچنے سے چند دن بعد شہر کے لوگ من جملہ

مدینہ والے فرزند پیامبر کی شہادت سے آگاہ ہو گئے۔ اس صورت میں ممکن ہے

کہ جابر اس بات سے با خبر ہو گئے ہوں اور اپنے اپ کو کربلا پہونچایا ہو ۔اس کہ باجود کہ جابر

کمسن اور نابینا تھے ۔امام حسین علیه السلام کی شہادت کے بعد اسلام بہت مرعوب ہو چکا تھا بنی امیّہ کی قدرت

اور کامیابی اس بات کا سبب بنی تھی اور جابر ان لوگوں میں سے تھے کہ جو اس امر سے نہیں ڈرے ۔

اور انھوں نے امام حسین علیه السلام کی شخصیت کو پہچنوانے کیلئے بہت بڑے بڑ ے قدم اٹھائے ۔

جس وقت مدینہ سے کربلا کیلئے روانہ ہوے ہیں ضعیفی اور ناتوانی نے انکو پریشان کر رکھا تھا۔

اور بعض روایات کے مطابق نا بینا بھی تھے ۔

لیکن جابر لوگوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے کیلئے اس کام کو انجام دیتے ہیں ۔

اور اہلبیت کی تائید کے ساتھ یہ ہر سال کی رسم بن چکی تھی اور اسکی بہت ساری برکتیںبھی تھیں ۔

اور اس دن میں زیارت کے سلسلہ میں نزدک یا دور سے بہت ساری روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔

اس زیارت میں جابر کے ہمراہ عطیّہ کہ جو اسلام کی بڑی شخصیتوں ،اور مفسر قرآن کے عنوان

پہچانے جاتے تھے بھی تھے ۔

جابر اور عطیّہ نے فرات کے پانی میں غسل کیااور جس طرح حاجی خداکے گھر کیلئے احرام

باندھتے ہیں اپنے اپ کو آمادہ کر کے ننگے پاوں اور چوٹھے چوٹھے قدموں کے ساتھ

شہداءکے مزار کی طر ف روانہ ہوے سب سے پہلے اما م حسین علیه السلام کی قبر مطھّر پر تشریف لے گئے

اور حبیبی ،حبیبی کی آواز کے ساتھ امام حسین علیه السلام کو مخاطب کو قراردیا اور اسی حال میں امام حسین علیه السلام سے

پوچھا کیا یہ ہو سکتا ہے دوست ،دوست کا جواب نہ دے اور بات کو آگے بڑھاتے ہوے کہا

کہ کیسے ہو سکتا کہ جواب دو جبکہ تمہاراسر تن سے جداہے اس طر ح امام حسین ع کی عزاداری کی بنیاد رکھی ۔

آخر میں قارئیں کرام سے دعا کی التماس کرتے ہوے اس بات کی امید کرتے ہیں کہ

اربعین کے اعمال کو انجام دیں گے اور مفاتیح الجنان کی رجوع کر کے اس روز کی زیارت پڑھیں

گے اسلےئے کہ چہلم کی زیارت کا پڑہنا مومن کی علامات میں سے ہے اسکے علاوہ چہلم کے مراسم

میں ایران کے گوشے گوشے میں شرکت کریں اور اسی طرح تمام ممالک جہاں جہاں محبّان اہلبیت ہیں چہلم کے مراسم میں شرکت کریں ۔

والسلام