|
نمازآیات کاطریقہمسئلہ۱۵۲۷۔نمازآیات دورکعت ہے اورہررکعت میں پانچ رکوع ہیں اوراس کاطریقہ یہ ہے : نیت کے بعدتکبیرة الاحرام کہہ کر ایک حمدوپوراسورہ پڑھے پھررکوع کرکے کھڑاہواوردوبارہ حمدوسورہ پڑھ کررکوع میں جائے پھر سہ بارہ رکوع سے کھڑے ہوکر حمدوپوراسورہ پڑھ کررکوع کرے اورچوتھی بارکھڑے ہوکر حمدوپوراسورہ پڑھے پھررکوع کرکے پانچویں بارکھڑا ہوکر حمدوسورہ پڑھ کررکوع کرے، پانچواں رکوع کرکے جب کھڑاہوتودوسجدے بجالائے، اسی طرح سے دوسری رکعت بھی پڑھے اورتشہد وسلام پڑھ کر نمازختم کرے۔ مسئلہ۱۵۲۸۔ نمازآیات میں یہ بھی ممکن ہے کہ کہ نیت وتکبیرة الاحرام کے بعد ایک مرتبہ حمدپڑھے پھرکسی سورہ کوپانچ حصوں پرتقسیم کرکے پہلاحصہ پڑھے، مثلا : ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ پڑھے اوررکوع میں چلاجائے رکوع سے اٹھ کر حمدپڑھے بغیر”قل ہو اللہ احد“ کہے اوررکوع میں چلاجائے پھررکوع سے اٹھ کر حمدپڑھے بغیر” اللہ الصمد“ کہے اوررکوع میں جائے پھررکوع سے اٹھ کر”لم یلدولم یولد“ کہے اوررکوع میںچلاجائے پھررکوع سے اٹھ کر ”ولم یکن لہ کفوااحد“ کہہ کر رکوع کرے پھررکوع سے کھڑے ہوکر دونوں سجدے کرے اوررکعت دوم بھی رکعت اول کی طرح بجالائے پھر تشہدوسلام پڑھ کر نمازتمام کرے۔ مسئلہ۱۵۲۹۔ نماز آیات میں ایک رکعت پہلے طریقے سے اوردوسری دوسرے طریقے سے بھی پڑھ سکتاہے۔ مسئلہ۱۵۳۰۔ جوچیزیں نمازپنجگانہ میں واجب ومستحب ہیں وہی نمازآیات میں بھی واجب ومستحب ہیں صرف نمازآیات میں اذان واقامت نہیں ہے، بلکہ اس کے بجائے تین مرتبہ ”الصلاة “کہاجاتاہے۔ مسئلہ۱۵۳۱۔ مستحب ہے کہ پانچویں اوردسویں رکوع کے بعد”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہے، اسی طرح ہررکوع میں جانے سے پہلے اوراٹھنے کے بعد تکبیرکہے لیکن پانچویں اوردسویں رکوع کے بعد تکبیرکہنامستحب ہے۔ مسئلہ۱۵۳۲۔ مستحب ہے کہ دوسرے، چوتھے، چھٹے، آآٹھویں اوردسویں رکوع سے پہلے قنوت پڑھے اوراگرصرف ایک قنوت دسویں رکوع سے پہلے پڑھ لے توبھی کافی ہے۔ مسئلہ۱۵۳۳۔ اگرنمازآیات میں شک کرے کہ کتنی رکعت پڑھی ہے اورذہن کسی طرف کا فیصلہ نہ کرسکے تونمازباطل ہے۔ مسئلہ۱۵۳۴۔ اگرشک ہوکہ پہلی رکعت کے آخری رکوع میں ہے یادوسری رکعت کے پہلے رکوع میں اورذہن کسی طرف کافیصلہ نہ کرسکے تونمازباطل ہے، لیکن اگرشک ہوکہ چاررکوع کئے ہیں یاپانچ اورابھی تک سجدہ کی طرف نہ جھکاہوتوپھرجس رکوع کے متعلق شک ہے اسے دوبارہ بجالائے اوراگرسجدہ میں جانے کے لئے جھک گیاہے تواس شک کی پرواہ نہ کرے۔ مسئلہ۱۵۳۵۔ نمازآیات کاہررکوع رکن ہے اگرعمدایاسہواکم یازیادہ ہوجائے تونمازباطل ہے۔ نمازجمعہمسئلہ۱۵۳۶۔امام زمانہ کی غیبت میں نمازجمعہ واجب تخیری ہے( یعنی مکلف کوجمعہ کے دن اختیارہے کہ نمازجمہ پڑھے یانمازظہر) لیکن نمازجمعہ ظہرسے افضل ہے اورظہراحوط ہے اوراگرزیادہ احتیاط کرناہوتودونوں کوبجالائے۔ مسئلہ۱۵۳۷۔ نمازجمعہ کوظہرکے بدلے میں پڑھ لیناکافی ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ ظہرکوبھی پڑھ لے۔ نمازجمعہ کی شرائطمسئلہ ۱۵۳۸۔ نمازجمعہ کوجماعت کے ساتھ پڑھناچاہئے اورانفردی طورپر پڑھناصحیح نہیں ہے۔ مسئلہ ۱۵۳۹۔ نمازیومیہ کی جماعت میں جوشرائط ہیں وہ سب یہاں نمازجمعہ میں بھی معتبرہیں، مثلا حائل نہ ہونا، فاصلہ نہ ہو اوردیگر شرائط۔ مسئلہ۱۵۴۰۔ امام جماعت کی جوشرائط ہیں وہ سب ہی امام جمعہ میں شرط ہیں، مثلا : عقل، ایمان، عدالت، حلال زادہ ہونا، لیکن نمازجمعہ میں عورتوں اوربچوں کی پیش نمازی جائزنہیں ہے، اگرچہ دیگر نمازوں میں ممیزبچہ دوسرے بچوں کے لئے پیش نمازی کرسکتاہے، اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ عورتیں پیش نمازی نہ کرے۔ مسئلہ۱۵۴۱۔ مسافر، عورت، بوڑھا، اندھا، دیوانہ، نابالغ، اورغلام پرنمازجمعہ واجب نہیں ہے، اس لئے نمازجمعہ مردوں پر اورجولوگ سالم وتندرست ہیں اورعاقل وبالغ ہیں ان پرنمازجمعہ واجب ہے، بشرطیکہ ان کے رہنے کی جگہ کے درمیان اورنمازجمعہ کی جگہ میں دوفرسخ (چھ میل شرعی) سے زیادہ فاصلہ نہ ہو، لہذااگرکسی میں گزشتہ شرائط موجودنہ ہوتونمازجمعہ کے لئے گھرسے نکلنااس کے لئے واجب نہیں ہے چاہے باعث مشقت وحرج بھی نہ ہو۔ مسئلہ۱۵۴۲۔ دونمازجمعہ کے درمیان ایک فرسخ سے کم کافاصلہ نہیں ہوناچاہئے۔ مسئلہ۱۵۴۳۔ نمازجمعہ منعقد ہونے کے لئے کم ازکم پانچ آدمیوں کاہوناضروری ہے جن میں سے ایک امام ہے، ورنہ منعقد نہیں ہوگی، لیکن اگر سات آدمی یااس سے زیادہ تعدادہواس کی فضیلت بڑھتی جائے گی۔ مسئلہ۱۵۴۴۔ اگرنمازجمعہ کی ضروی شرائط موجودہوجائے توشہر، دیہات،گاؤں کے رہنے والوں پرحتی کہ خانہ بدوش لوگوں پرنمازجمعہ واجب ہوگی۔ مسئلہ۱۵۴۵۔ جن لوگوں پرنمازجمعہ واجب نہیں ہے اگروہ نمازجمعہ میں شریک ہوں تو توان کی نمازصحیح ہے اورظہرکی جگہ پرشمارہوجائے گی، لیکن اگردیوانہ نمازجمعہ میں شریک ہوجائے اس کی نمازصحیح نہیں ہے، لیکن نابالغ بچہ کی نمازصحیح ہے لیکن بچہ سے تکمیل عدد جائزنہیں ہے اورنہ صرف بچوں سے نمازجمعہ منعقدہوسکتی ہے۔ مسئلہ۱۵۴۶۔ مسافرنمازجمعہ میں شریک ہوسکتاہے اوراگرشرکت کی تونمازظہرپڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، ا لبتہ بہت سے مسافر، غیرمسافر کولئے بغیرکسی جگہ نمازجمعہ منعقدکرناچاہیں تونہیں ہوسکتی بلکہ مسافرین نمازظہرپڑھنی واجب ہے، اسی طرح مسافرسے نماز جمعہ میں جوعدد معتبرہے اس کوتکمیل نہیں کرسکتے، ہاں اگرمسافرکسی جگہ دس دن رہنے کاقصدکرے تونمازجمعہ قائم کرسکتے ہیں۔ مسئلہ۱۵۴۷۔ عورتیں نمازجمعہ میں شریک ہوسکتی ہیں اوران کی نمازصحیح ہے اورنمازظہرکے بدلے میں کافی ہے لیکن عورتیں بہ تنہائی نماز جمعہ قائم نہیں کرسکتیں جس طرح مکمل عدد نہیں ہوسکتی۔ مسئلہ۱۵۴۸۔ خنثی مشکل(یعنی وہ شخص جوکسی بھی طریقہ سے معلوم نہ ہومرد ہے یاعورت) کے لئے نمازجمعہ میں شریک ہوناجائزہے لیکن امامت نہیں کرسکتا،اسی طرح عددکی بھی تکمیل نہیں کرسکتا۔ نمازجمعہ کاوقت مسئلہ۱۵۴۹۔ نمازجمعہ کااول وقت زوال سے شروع ہوتاہے اورجب شاخص کاسایہ۷/۲ سے زیادہ ہوجائے توختم ہوجاتاہے یعنی ایک گھنٹہ زوال کے گزرجانے کے تک ہےں، لیکن احتیاط واجب ہے کہ اول زوال سے زیادہ تاخیرنہ ہوجائے اوراکرتاخیرہوگئی تواحتیاط مستحب یہ ہے کہ نمازظہربجالائے۔ مسئلہ۱۵۵۰۔ اگرامام جمعہ خطبہ کوزوال سے پہلے شروع کردے اورزوال کے موقع پرختم کردے اورنمازجمعہ پڑھادے توصحیح ہے۔ مسئلہ۱۵۵۱۔ امام جمعہ کے لئے جائزنہیں ہے کہ خطبوں کواتناطولانی کرے کہ نمازجمعہ کاوقت گزرجائے، ا وراگرایساکیاتونمازظہرپڑھے کیونکہ نمازجمعہ اگرفوت ہوجائے تواس کی قضانہیں ہے۔ مسئلہ۱۵۵۲۔ اگرلوگوں نے نمازجمعہ شروع کی اورجمعہ کاوقت ختم ہوگیاتوایسی صورت میں اگرایک رکعت بھی وقت کے اندرہوگئی ہے تب تو جمعہ صحیح ہے ، لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ جمعہ مکمل کرکے نمازظہربھی پڑھے، اوراگرایک رکعت بھی وقت کے اندرنہ ہوتونمازجمعہ باطل ہے، لیکن ا حتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کوتمام کرے اورپھرنمازظہرپڑھے۔ مسئلہ۱۵۵۳۔ اگرجان بوجھ کرنمازجمعہ میں اتنی تاخیرکردے کہ صرف ایک رکعت کاوقت باقی رہ جائے تواحتیاط واجب یہ ہے کہ نماز ظہر کوبجالائے۔ مسئلہ۱۵۵۴۔ اگریقین ہوکہ ابھی اتناوقت باقی ہے جس میں مختصرواجبی خطبے اورمختصرطریقہ سے دونوں رکعتیں پڑھی جاسکتی ہیں تونماز جمعہ اورظہرکے پڑھنے میں اختیارہے جس کوچاہے پڑھے، لیکن اگریقین ہوجائے کہ اب اتنابھی وقت باقی نہیں ہے توظہرکاپڑھناواجب ہے، اوراکروقت باقی ہونے میں شک ہواورنمازپڑھ لے توصحیح ہے لیکن اگربعدمیںمعلوم ہوجائے کہ ایک رکعت کے لئے بھی وقت باقی تھا تب ظہرپڑھنی چاہئے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر ایک رکعت بھی وقت میں واقع ہوئی ہوپھربھی نمازظہرپڑھے۔ مسئلہ۱۵۵۵۔ اگریہ معلوم ہوکہ وقت باقی ہے لیکن اس میںشک ہے کہ اتنی دیرمیں نمازجمعہ پڑھی جاسکتی ہے یانہیں تونمازجمعہ کاشروع کردیناصحیح ہے، اب اگراتناوقت تھاتونمازجمعہ صحیح رہے گی ورنہ نمازظہرپڑھنی پڑے گی، لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس صورت میں نماز ظہر ہی پڑھے۔ مسئلہ۱۵۵۶۔ اگروسیع وقت میں معتبرتعدادکے ساتھ امام نمازجمعہ شروع کرے اورموجودہ مامومین کے علاوہ کوئی دوسراماموم خطبہ اورنماز کے ابتدائی حصہ کونہ پاسکے مگر اسے امام کے ساتھ ایک رکعت مل جائے تواسے امام کے ساتھ ایک رکعت جمعہ کی پڑھناچاہئے، اس کے بعدایک رکعت اورفرادی پڑھنی چاہئے، اس طرح اس کی نمازصحیح ہوگی (بشرطیکہ دوسری رکعت کے لئے نمازجمعہ کاوقت باقی ہو) لیکن اگرکوئی شخص دوسری رکعت کے رکوع کی تکبیرامام کے ساتھ نہ پاسکے تواس کے لئے بہتریہ ہے کہ چاررکعت ظہرکی پڑھے۔ نمازجمعہ کی کیفیت ۱۵۵۷۔ نمازصبح کی طرح نمازجمعہ دورکعت ہے اورمستحب ہے کہ حمدوسورہ کوبلندآوازسے پڑھی جائے اورپہلی رکعت میں حمدکے بعدسورہ جمعہ اوردوسری رکعت میں حمدکے بعدسورہ منافقون پڑھنامستحب ہے۔ مسئلہ۱۵۵۸۔ نمازجمعہ میں دوقنوت مستحب ہیں ایک پہلی رکعت میں رکوع سے پہلے اوردوسری رکعت میں رکوع کے بعد قنوت۔ مسئلہ ۱۵۵۹۔ نماز جمعہ میں دوخطبہ ہیں جوکہ اصل نماز کی طرح واجب ہیں اوردونوں خطبے امام جمعہ کوپڑھناچاہئے، اورنمازجمعہ بغیرخطبے کے منعقد نہیں ہوگی۔ مسئلہ۱۵۶۰۔ دونوں خطبوں کونمازجمعہ سے پہلے پڑھناچاہئے اوراگربالعکس بجالائے باطل ہے اوروقت باقی ہونے کی صورت میں نمازجمعہ کودوبارہ خطبے کے بعد بجالاناچاہئے لیکن اگرکسی نے مسئلہ سے ناواقف ہونے یاغلطی سے اس طرح کرے توخطبوں کواعادہ کرنابلکہ نمازکابھی اعادہ واجب نہیں ہے۔ مسئلہ۱۵۶۱۔ جمعہ کوخطبوں کوزوال سے اتنے پہلے شروع کرناجائزہے کہ خطبوں کے ختم ہوتے ہوئے زوال کاوقت ہوجائے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ زوال کے وقت خطبے پڑھے جائیں۔ مسئلہ۱۵۶۲۔ دونوں خطبوں میں حمدالہی واجب ہے اوراحتیاط مستحب ہے کہ الفاظ ”اللہ“ سے شروع ہواوراس کے بعداحتیاط واجب کی بناء پر”اللہ“ کی ثنا وتوصیف کی جائے اورپہلے خطبہ میں درود احتیاط وجوبی کی بناء پرضروری ہے اوردوسرے میں علی الاقوی درود واجب ہے، ا ورتقوی، خوف خدا کی وصیت پہلے خطبہ میں واجب ہے اوردوسرے خطبے میں احتیاط واجب ہے، اسی طرح ایک چھوٹے سورہ کاپڑھناپہلے خطبہ میں علی الاقوی اوردوسرے خطبہ میں احتیاط کی بناپرواجب ہے، اوراحتیاط مستحب اورمؤکد دوسرے خطبہ میں یہ ہے کہ درودوسلام کے بعدآئمہ معصومین پردرودبھیجے اورتمام مؤمنین ومؤمنات کے لئے استغفارکرے، ویسے سب سے بہتریہ ہے کہ مولائے کائنات یااہل بیت علیہم السلام کے جوخطبے منقول ہیں ان میں سے کسی ایک خطبے کوپڑھے۔ مسئلہ۱۵۶۳۔ خطیب جمعہ کوبلیغ ہوناچاہئے یعنی موقع ومحل کی مناسبت سے خطابت کرنے کااہل ہواورایسے جملہ استعمال کرے جوفصیح ہوں، ان میں سخت اور مشکل عبارات نہ ہو، دنیامیں مسلمانوں پرجوبیت رہی ہے اس سے واقف ہو، خصوصااپنے ا طراف کے حالات سے باخبرہو، اسلام اورمسلمانوں کی مصلحتوں کوپہنچاننے والاہو، بہادرہواللہ کے بارے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہ ڈرتاہو، زمان ومکان کے لحاظ سے اظہارحق اورابطال باطل کرنے والاہو، جن چیزوں سے تاثیرکلام بڑھتی ہے ان کاپابندہو، مثلااوقات نمازکاپابندہو، اس میں اولیاء وصلحاء کے اوصاف پائے جاتے ہوں، اس کے قول وفعل میں مطابقت ہو، جن چیزوں سے خوداس کی یااس کے کلام کی ا ہمیت کم ہوتی ہوان سے پرہیزکرنے والاہو، یہاں تک کہ زیادہ مزاح کرنے والاہو، باتونی اوربے معنی کلام کرنے والانہ ہواوریہ سب باتیں دنیااوراس کی ریاست کے لئے نہ ہوں، کیونکہ ہرغلطی کاسبب حب دنیاہے تویہ خصوصیت اگرخطیب میں موجود ہوتواس کاکلام لوکوں کے دلوں میں اثراندازہوگا۔ مسئلہ۱۵۶۴۔ خطبہ پڑھنے والے امام جمعہ کو اپنے خطبہ میں مسلمانوں کی دینی، دنیاوی، مصالح، اسلامی اورغیراسلامی ملکوں میں مسلمانوں کی مفادات، مسلمانوں کے دینی اوردنیاوی ضرورتوں کوایسے سیاسی اوراقتصادی مسائل جوبراہ راست معاشرہ اسلامی کے استقلال اورحیثیت کے متعلق ہوں، ان کومسلمانوں کی دوسروں کے ساتھ طرزمعاشرت کوبیان کرناچاہئے، اسی طرح ان کودوسری ظالم اورسامراجی حکومتوں کے دخیل ہونے سے ڈراناچاہئے، خصوصامختصریہ ہے کہ حج وعیدین کی طرح نمازجمعہ اوراس کے خطبے بہت بڑی اہمیت کے حامل ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ مسلمان اپنے سیاسی مسائل سے بہت ہی زیادہ غفلت برتتے ہیں جبکہ اسلام وہ دین ہے جس کی ہرشان وحالت سیاست پرمبنی ہے اوراسلام کادین سیاست ہوناہراس شخص پر ظاہر ہے جواسلام کے سیاسی، حکومتی،اقتصادی، اجتماعی احکام پرادنی تدبررکھتاہو، پس وہ لوگ جوخیال کرتے ہیںدین سیاسب سے جداہے نہ اسلام کی معرفت رکہتے ہیں اورنہ سیاست کوجانتے ہیں۔ مسئلہ۱۵۶۵۔ امام جمعہ کے لئے مستحب ہے کہ گرمی، سردی، ہرزمانہ میںعمامہ باندھے، یمنی یاعدنی ردااوڑھے، پاک وپاکیزہ لباس پہنے، خوشبولگائے، سکون ووقارسے رہے، منبرپرجاکرحاضرین کوسلام کرے، اس کارخ لوگوں کی طرف ہواورلوگوں کارخ اس کی طرف ہو، خطبہ پڑھتے وقت کمان، عصا، تلوار وغیرہ پرٹیک لگائے ہو، خطبہ سے پہلے مؤذن کے اذان کہتے وقت منبرپربیٹھارہے۔ مسئلہ۱۵۶۶۔ خطیب کاکھڑا ہوناخطبہ پڑھتے وقت واجب ہے نیزخطیب اورامام کاایک ہی ہوناضروری ہے، اگرخطیب کھڑانہیں ہوسکتاتوجوشخص کھڑے ہوکرخطبہ پڑھے وہی نمازبھی پڑھائے اوراگرعاجزخطیب کے علاوہ کوئی دوسرانہیں ہے تونمازظہرپڑھنی چاہئے اورجمعہ ساقط ہے۔ مسئلہ۱۵۶۷۔ خطبوں کوآہستہ پڑھناجائزنہیں ہے خصوصامواعظ اورنصائح کواوراحتیاط واجب یہ ہے کہ اتنی بلندآوازسے خطبہ پڑھاجائے کہ کم ازکم چار آدمی سن لیں بلکہ بہتریہ ہے کہ اتنی زورسے خطبہ پڑھے کہ تمام حاضرین سن لیں بلکہ ایساکرنا احوط ہے ورنہ وعظ ونصیحت کےلئے اورضروی مسائل بتانے کے لئے بڑئے مجمع میں لاؤڈسپیکر استعمال کرے۔ مسئلہ۱۵۶۸۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ خطیب خطبوں کے درمیان خطابت سے مربوط باتوں کے علاوہ دوسری گفتگونہ کرے، ہاں خطبوں کے بعدنماز شروع کرنے تک گفتگو کرسکتاہے۔ مسئلہ۱۵۶۹۔ دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیربیٹھنا بھی واجب ہے۔ مسئلہ۱۵۷۰۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ خطیب اورسننے والے خطبہ دیتے وقت حدث اورخبث سے پاک اورباطہارت ہوں۔ مسئلہ۱۵۷۱۔ سننے والوں کاامام کی طرف خطبہ پڑھتے وقت رخ رکھنااورنمازمیں جتنی توجہ جائزہے اس سے زیادہ خطبہ میں بھی ادہرادہرملتفت نہ ہونا مستحب ہے۔ مسئلہ۱۵۷۲۔ خطبہ کوکان لگاکرسننا واجب ہے، اسی طرح خطبہ کے درمیان باتیں نہ کرنااوراحتیاط مستحب یہ ہے کہ مامومین خاموش رہیں، ہاں گفتگونہ کرنی چاہئے ۔ مسئلہ۱۵۷۳۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ حمدوصلوات کوخطیب عربی زبان میں ہی پڑھے چاہئے خطبے پڑھنے والااورسننے والے دونوں غیرعربی ہوں، البتہ وعظ وغیرہ کو غیرعربی میں بھی کہاجاسکتاہے، بلکہ احتیاط مستحب ہے کہ وعظ اوردیگر امورجومسلمین کے مصالح سے متعلق ہوں سننے والوں ہی کی زبان میں ہوں اوراگر وہ مختلف زبانوں کے جاننے والے ہوں توان کی زبان میں کہاجائے، البتہ اگرتعدادواجبی تعدادسے زیادہ ہے توواجبی تعدادوالوں کی زبان پراکتفاء کرناجائزہے، لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ سننے والوں کی زبان میں خطبہ کہاجائے۔ مسئلہ۱۵۷۴۔ نمازجمعہ میں صرف ایک اذان کافی ہے، لہذا جمعہ کے دن دوسری اذان بدعت اورحرام ہے۔ نمازجمعہ کے احکاممسئلہ۱۵۷۵۔ جس امام کی اقتداء میں نمازجمعہ اداکی ہے اس کی اقتداء میں نمازعصرپڑھی جاسکتی ہے، البتہ اگرکوئی احتیاط پرعمل کرناچاہے توعصرکو جماعت سے پڑھنے کے بعدپھرظہرین کوفرادی بھی پڑھ لے، لیکن اگرامام وماموم نمازجمعہ کے بعدعصرسے پہلے احتیاطا نمازظہرفرادی پڑھ لیں تونمازعصرمیں امام جمعہ کی اقتداء کی جاسکتی ہے اوراس سے احتیاط حاصل ہوجائے گی۔ مسئلہ۱۵۷۶۔ نمازجمعہ پڑھنے والے ماموم اورامام اگراحتیاطا نمازظہرپڑھیں تواس میں بھی اقتداء کی جاسکتی ہے، البتہ جن مامومین نے نمازجمعہ نہیں پڑھی بلکہ صرف ظہراحتیاطی میں اقتداء کی ہے توان کے لئے صرف اس نمازکاپڑھناکافی نہیں ہے، بلکہ نمازظہرکادوبارہ پڑھناواجب ہے۔ مسئلہ۱۵۷۷۔ پہلی رکعت میں امام کے ساتھ رکوع پاجانے والاماموم اگراژدھام وغیرہ کی وجہ سے امام کے ساتھ سجدہ نہ کرسکے اوراسے امام کے بعدسجدہ کرکے رکوع سے پہلے یارکوع میں امام سے مل جاناممکن ہوتوایساکرلیناچاہئے اس کی نمازصحیح رہے گی، اوراگریہ ممکن نہ ہوتورکوع میںامام کی متابعت نہ کرے، بلکہ جب امام دوسری رکعت کے لئے سجدہ اول میں پہنچے تواس کے ساتھ سجدے بجالائے اورنیت یہ رہے کہ دونوں سجدے پہلی رکعت ہیں، ایساکرنے سے امام کے ساتھ ایک رکعت مکمل ہوجائے گی پھردوسری رکعت اکیلاکھڑے ہوکرپڑھ لے اوراس کی نمازصحیح ہے، لیکن اگراس نے یہ نیت کرلی کہ یہ دونوں سجدے دوسری رکعت کے ہیں تواحتیاط واجب یہ ہے کہ ان دونوں کوکالعدم سمجھ کر پہلی رکعت کے لئے سجدے کرے اوردوسری رکعت پڑھ لے، اورنمازکے بعد نمازظہرکوبھی بجالائے۔ مسئلہ ۱۵۷۸۔ اگرماموم دسری رکعت میں، تکبیرکہہ کر رکوع میں جائے پھراسے شک ہوکہ امام رکوع میں تھایانہیں اورمیں نے اسے رکوع میں پالیاہے یا نہیں تواس کی یہ نمازجمعہ کی نمازنہ ہوگی اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ اسے ظہرقراردے کر مکمل کرناچاہئے اوردوبارہ نمازظہرپڑھے۔ مسئلہ۱۵۷۹۔ اگرخطبے کے بعداورامام کے نمازشروع کرنے کے بعد مامومین تکبیرسے پہلے چلے جائیں توبظاہرجمعہ منعقد نہ ہوگااورباطل ہے اورامام کے لئے جائزہے کہ اس کوچھوڑکرنمازظہرشروع کرے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ ظہرکی نیت کرکے مکمل کرے پھردوبارہ نمازظہربھی پڑھے اوراس سے بھی زیادہ احتیاط کی صورت یہ ہے کہ شروع کی ہوئی نمازکوتوجمعہ کی طرح پڑھے اس کے بعدظہرکی نماز پڑھے۔ مسئلہ۱۵۸۰۔ اگرامام کے ساتھ چارآدمی نمازجمعہ شروع کردیں، چاہے تکبیرہی میں اقتداء کی ہو، پھرایک آدمی کے علاوہ بقیہ چھوڑ کرچلے جائیں تونمازباطل ہے، چاہے امام کے علاوہ سب ہی چلے گئے ہوں یاامام کے ساتھ دوایک آدمی رہ گئے ہوں یاامام چلاگیاہواورچاروں ماموم رہ گئے ہوں، اورچاہے ان لوگوں نے ا یک رکعت یااس سے بھی کم نمازپڑھی ہولیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ نمازجمعہ کوتمام کریں اوراس کے بعدظہرکوبجالائیں، ہاں اگردوسری رکعت کے بالکل آخرمیں بلکہ دوسری رکعت کے رکوع کے بعدہی چھوڑ کرچلے جائے تونمازجمعہ صحیح ہے اوراحتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کے بعدنمازظہرکوبھی بجالائے۔ مسئلہ۱۵۸۱۔ اگرلوگوں کی تعدادنصاب جمعہ( یعنی پانچ آدمی) سے زیادہ ہوتوکچھ لوگوں کے چلے جانے سے کوئی اثرنہیں پڑے گا بشرطیکہ بقیہ لوگوں کی تعداد نصاب بھرہو۔ مسئلہ۱۵۸۲۔ اگرنمازجمعہ کے انعقادکے لئے پانچ نفرجمع ہوجائیں پھرخطبہ کے درمیان یابعدنمازجمعہ سے پہلے متفرق ہوجائیں اورجانے والے پلٹ کربھی نہ آئیں اورنہ وہاں اتنے آدمی اورہوں جن سے واجب عدد پوری ہوجائے توسب پرنمازظہرمعین ہوگی۔ مسئلہ ۱۵۸۳۔ اگرتعدادواجب میں سے بعض مومنین واجب بھر خطبہ سننے سے پہلے ہی اٹھ کرچلے جائیں اورزیادہ دیرکئے بغیرواپس آجائیں اورامام نے بھی ان لوگوں کے چلے جانے کے بعد سے خطبہ روک دیاہوتوجہاں سے روکاہے وہیں سے پھرشروع کردے اوراگرامام نے خطبہ کونہ روکاہو توجہاں سے ان لوگوں نے نہیں سنااتنے حصے کودوبارہ پڑھ لے، البتہ اگرجانے والے اتنی دیربعدپلٹے ہوں جس سے خطبہ کی وحدت عرفیہ ختم ہوگئی ہوتوشروع سے خطبہ کااعادہ کرناچاہئے، اسی طرح اگرجانے والے تونہیں پلٹے لیکن ان کے بدلے کچھ دوسرے لوگ آگئے ہوںتب بھی امام کے خطبہ پھرسے پڑھناچاہئے۔ مسئلہ۱۵۸۴۔ اگرتعدادواجب خطبے کے درمیان یابعدمیں متفرق ہوجائیں اورپھرواپس پلٹ آئیں، یہاں اگرتفرق واجب بھر خطبہ سننے کے بعد ہواہوتو خطبے کودوبارہ پڑھانے کی ضرورت نہیں ہے، چاہے دیرسے واپس پلٹ آئیں، اوراگرتفرق واجب بھر خطبہ سننے سے پہلے ہی واقع ہوجائے، یہاں اگرتفرق نمازجمعہ کوچھوڑدینے کی نیت سے واقع ہواہوتو احتیاط واجب یہ ہے کہ ہرحالت میں پھرسے خطبہ پڑھاجائے، لیکن اگرکسی عذرکی وجہ سے گئے ہوئے ہوں مثلابارش وغیرہ، اب اگراتنی دیرہوجائے جس سے وحدت عرفیہ ختم ہوجائے توپھرسے خطبہ کاپڑھناواجب ہے، ہاں اگروحدت عرفیہ باقی ہوتواسی پربنا رکھے اورنمازجمعہ کوتمام کرے اورصحیح ہے۔ مسئلہ۱۵۸۵۔ تین میل کے اندردوسری نمازجمعہ منعقدنہیں ہوتی ہے، اب اگر تین میل کافاصلہ ہوتودونوں جماعتیں صحیح ہیں اوردوسری کامعیاردونوں نماز جمعہ کاجائے وقوع ہے نہ وہ شہرجن میں جمعہ منعقدہوتی ہو، اس لئے بڑے بڑے شہروں میں جن کی لمبائی چند فرسخ ہے کئی نمازجمعہ منعقد ہوسکتی ہیں۔ مسئلہ۱۵۸۶۔ جس جگہ نمازجمعہ پڑھناچاہیں وہاں احتیاط مستحب ہے کہ پہلے یہ معلوم کرلیناچاہئے کہ حدشرعی کے اندراسی وقت یااس سے پہلے کوئی نماز جمعہ تونہیں ہوتی۔ مسئلہ۱۵۸۷۔ تین میل سے کم میں ہونے والی دونمازجمعہ اگرایک ساتھ شروع ہوں تودونوں باطل ہیں، ورنہ جوپہلے شروع ہوئی ہے وہ صحیح ہے، چاہے صرف تکبیرة الاحرام پہلے کہی گئی ہواورچاہے نمازجانتے ہوں کہ دوسری نمازبعدمیں ہوئی ہے یانہ جانتے ہوں، اسی طرح بعدوالی نمازباطل ہے چاہے اس کے نمازیوں کومعلوم ہوکہ اس سے پہلے نمازجمعہ ہوئی ہے یانہ معلوم ہو، نمازکی صحت کادارومدارنمازہی کے تقدم وتاخرپرہے، خطبہ کے آگے پیچھے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس لئے اگر ایک جماعت کاخطبہ پہلے شروع ہواوردوسری کی نمازپہلے شروع ہوئی ہوتودوسری نمازصحیح رہے گی پہلی باطل ہوجائے گی۔ مسئلہ۱۵۸۸۔ اگریہ معلوم ہوکہ حدشرعی کے اندرکوئی اورنمازجمعہ ہوتی ہے لیکن شک ہواسی وقت ہوتی ہے یااس سے پہلے ہوتی ہے مشکوک ہو، تودوسری نماز جمعہ منعقد کرسکتے ہیں، اسی طرح اگرشک ہوکہ حدشرعی کے اندرکوئی نمازجمعہ منعقدہوتی ہے کہ نہیں۔ مسئلہ۱۵۸۹۔ نمازجمعہ پڑھ لینے کے بعد اگردوسری نمازجمعہ ہونے کاعلم ہواوردونوں جماعتوں کے بارے میں آگے پیچھے ہونےکااحتمال ہوتوبظاہردونوں پر نہ جمعہ کااعادہ واجب ہے نہ ظہرکااگرچہ احوط یہی ہے کہ اعادہ واجب ہے، اب اگرکوئی تیسری جماعت جوان دونوں جمعوں میں شریک نہیں ہوئی ہے تیسرا جمعہ پڑھناچاہتی ہے توجب تک اسے جمعوں کے باطل ہونے کاعلم نہ ہوجائے اس وقت تک تیسراجمعہ نہیں پڑھاجاسکتا، البتہ اگرایک نمازکے صحیح ہونے کااحتمال بھی ہوتب بھی تیسری جماعت کابرپاہوناجائزنہیں۔ مسئلہ۱۵۹۰۔ خریدوفروخت یااس کے علاوہ دوسرے معاملات جمعہ کے دن اذان کے بعد ہمارے زمانہ میں جب کہ نمازجمعہ واجب تعیینی نہیں ہے حرام نہیں ہے۔ عیدفطراورعیدقربان کی نمازمسئلہ۱۵۹۱۔ یہ نماززمان حضور امام میں واجب ہے اوراس کوجماعت سے پڑھناچاہئے لیکن ہمارے زمانہ میں جوغیبت کازمانہ ہے، مستحب ہے اوراس نماز کوجماعت سے اورفرادی دونوں طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ مسئلہ۱۵۹۲۔ عیدین کی نمازکاوقت عیدکے دن طلوع آفتاب سے ظہرتک ہے۔ مسئلہ ۱۵۹۳۔ مستحب ہے کہ عیدین قربان کی نمازکوتھوڑاآفتاب چڑھ جانے کے بعدپڑھیں اورعیدالفطرمیں آفتاب چڑھ جانے کے بعد افطارکرنامستحب ہے اورفطرہ دے کرنمازعیدپڑھے۔ مسئلہ۱۵۹۴۔ عیدفطروقربان کی نمازدورکعت ہے پہلی رکعت میں حمدوسورہ پڑھنے کے بعد پانچ تکبیرکہے اورہرتکبیرکے بعدقنوت پڑھے اورپانچویں قنوت کے بعدتکبیرکہہ کر رکوع میں جائے اس کے بعددوسجدے کرکے کھڑا ہواوردوسری رکعت میں چارتکبیرکہے اورہرتکبیرکے بعدقنوت پڑھے پھرپانچویں تکبیرکہہ کر رکوع میں جائے اس کے بعددوسجدے کرکے تشہدوسلام پڑھ کرنمازتمام کرے۔ مسئلہ۱۵۹۵۔ ویسے توقنوت میں ہردعاکافی ہے لیکن بقصدثواب اس دعاکاپڑھنامناسب ہے: اللہم اہل الکبریاء والعظمة واہل الجودوالجبروت واہل العفووالرحمة واہل التقوی والمغفرة اسالک بحق ہذا الیوم الذی جعلتہ للمسلمین عیدا ولمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ ذخراوشرفا وکرامة ومزیدا ان تصلی علی محمد وآل محمد وان تدخلنی فی کل خیرادخلت فیہ محمدا وآل محمدا وان تخرجنی من کل سوء اخرجت منہ محمدا وآل محمد صلواتک علیہ وعلیہم اللہم انی اسالک خیرماسالک بہ عبادک الصالحون واعوذبک ممااستعاذ منہ عبادک المخلصون۔ مسئلہ۱۵۹۶۔ مستحب ہے عیدین کی نمازمیں قرائت بلندآوازسے پڑھے۔ مسئلہ۱۵۹۷۔ ان نمازوں میں کسی مخصوص سورہ کی شرط نہیں ہے لیکن بہتریہ ہے کہ پہلی رکعت میں ”والشمس /سورہ۹۱“ اوردوسری رکعت میں سورہ ”غاشیہ / سورہ۸۸“ پڑھے یایہ کہ پہلی رکعت میں سورہ ”سبح اسم/ سورہ۸۷“ اوردوسری رکعت میں سورہ ”والشمس“ کوپڑھے۔ مسئلہ ۱۵۹۸۔ مستحب ہے کہ عیدالفطرمیں نمازسے پہلے کھجورسے افطارکریں اورعیدقربان میں نمازکے بعدتھوڑاساقربانی کاگوشت کھائیں۔ مسئلہ۱۵۹۹۔ مستحب ہے کہ نمازکے لئے پیدل ننگے پیراوروقارکے ساتھ جائیں اورنمازسے پہلے غسل کریں اورسفیدعمامہ باندھیں۔ مسئلہ۱۶۰۰۔ نمازعیدمیں مستحب ہے کہ زمین پرسجدہ کریں اورتکبیر کہتے وقت ہاتھوں کوبلندکریں اورنمازکوبلند آوازسے پڑھیں۔ مسئلہ۱۶۰۱۔ نمازعیدکوصحرامیں پڑھنامستحب ہے لیکن مکہ میں مستحب یہ ہے کہ مسجدالحرام میں پڑھی جائے۔ مسئلہ۱۶۰۲۔ شب عیدفطر، نمازمغرب وعشاء کے بعداورروزعید نمازصبح وظہروعصرکے بعد اورنمازعیدکے بعدان تکبیروں کوپڑھنامستحب ہے: اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد اللہ اکبر علی ماہدانا۔ مسئلہ ۱۶۰۳۔ عیدقربان میں دس نمازوں کے بعد گزشتہ تکبیروں کوکہے عیدقربان کونمازظہرکے بعد سے بارہویں کی نمازصبح کے بعد تک دس نمازیں ہوتی ہیں، البتہ ان تکبیروں میں اتنااضافہ اورکردے: اللہ اکبر علی مارزقنا من بھیمة الانعام والحمدللہ علی ماابلانا۔ اوراگرعیدقربان کے دن منی میں ہوتوان تکبیروں کوپندرہ نمازوں کے بعدکہے یعنی عیدکے دن نمازظہرکے بعدسے تیرہ ذی الحجہ کی نمازصبح کے بعدتک کہے۔ مسئلہ ۱۶۰۴۔ نمازعیدکوچھت کے نیچے پڑھنامکروہ ہے۔ مسئلہ۱۶۰۵۔ اگرنمازکی تکبیروں یاقنوتوں میں شک کرے تواگراس کامحل گزرچکاہوتوشک کی پرواہ نہ کرے اوراگر محل باقی ہوتوکم پربنا رکھے اوراگر بعد میں پتہ چلے کہ پہلے کہہ چکاتھا توکوئی حرج نہیں ہے۔ مسئلہ۱۶۰۶۔ اگرسہوقرائت یاتکبیروں یاقنوتوں کوبھول جائے اوررکوع میں پہنچنے کے بعد یاد آئے تواس کی نمازصحیح ہے۔ مسئلہ ۱۶۰۷۔ اگررکوع یادوسجدے یاتکبیرة الاحرام بھول جائے تواس کی نمازباطل ہوگی۔ مسئلہ۱۶۰۸۔ اگرنمازعیدمیں ایک سجدہ یاتشہد بھول جائے تواحتیاط مستحب ہے کہ نمازکے بعد رجاء ا (ثواب کی امیدسے) اس کوبجالائے اوراگرکوئی ایساکام کرے جس کے کرنے سے نمازپنجگانہ میں سجدہ سہوکرنا پڑتاہے تواحتیاط مستحب یہ ہےکہ نمازکے بعد دوسجدے سہورجاء ا بجالائے۔ نمازاجارہمسئلہ۱۶۰۹۔ انسان کے مرنے کے بعد اس کی نمازاورباقی تمام عبادات وغیرہ کوجنہیں وہ اپنی زندگی میں بجانہیں لایاتھا کسی کومزدوری دے کر پڑھوایا جاسکتاہے اوراگرکوئی شخص اجرت لئے بغیربجالائے توبھی صحیح ہے۔ مسئلہ۱۶۱۰ ۔ رسول خدااورآئمہ معصومین کی زیارت جیسی مستحبی چیزوں کے لئے زندہ کی طرف سے اجیربنایاجاسکتاہے، اسی طرح مستحب اعمال بجالاکر اس کاثواب مردوں یازندوں کوہدیہ کرسکتاہے۔ مسئلہ۱۶۱۱۔ میت کی قضانمازوں کو بجالانے کی لئے جوشخص اجیرہواس کے لئے ضرروی ہے کہ نمازکے مسائل کواچھی طرح جانتاہو، یاتقلیدسے یااحتیاط پر عمل کرے یامجتہدہو۔ مسئلہ۱۶۱۲۔ اجیر(مزدور) کوچاہئے کہ نیت کرتے وقت میت کومعین کرے لیکن اس کے نام کاجانناضروری نہیں بلکہ اتنی بھی نیت کافی ہے کہ میں نمازاس شخص کی طرف سے پڑھ رہاہوں کہ جس کے لئے میں اجیربنایاگیاہوں۔ مسئلہ۱۶۱۳۔ نائب کوچاہئے کہ اپنے کومیت کی جگہ فرض کرے اورمیت کے ذمہ جوعبادتیں ہیں ان کی قضاکرے اوراگرعمل انجام دے کر اس کاثواب میت کوہدیہ کرے تواپنے قرض سے سبکدوش نہیں ہوگا۔ مسئلہ۱۶۱۴۔ ایسے انسان کواجیربنایاجائے جس کے متعلق اطمینان ہوکہ وہ نمازکوصحیح طریقہ سے انجام دے سکتاہے اوراگرنمازیں پڑھنے کے بعدشک کرے کہ اس نے صحیح پڑھی ہیں یانہیں توبلااشکال ہے۔ مسئلہ۱۶۱۵۔ جس نے کسی شخص کومیت کی نمازپڑھنے کے لئے اجیربنایاہواگرمعلوم ہوجائے کہ اس نے نمازیں نہیں پڑھیں یاباطل پڑھی ہیں توان نمازوں کودوبارہ پڑھوانے کے لئے اجیربنائے۔ مسئلہ۱۶۱۶۔ اگرکوئی شک کرے کہ اجیرنے عمل انجام دیاہے یانہیں تواس کے کہنے پرقناعت نہیں کرناچاہئے، دوبارہ اجیرمقررکرے لیکن اگر شک کرے کہ اس کاعمل صحیح تھایانہیں توپھردوبارہ اجیربناناضروری نہیں ہے۔ مسئلہ۱۶۱۷۔ معذور(یعنی وہ شخص جوتیمم کے ساتھ یابیٹھ کرنمازپڑھتاہے) کومیت کی طرف سے اجیرنہیں بنایاجاسکتااگر چہ میت کی نمازاسی حالت میں قضا ہوئی ہو۔ مسئلہ۱۶۱۸۔ مرد عورت کی اورعورت مردکی نیابت کرسکتی ہے اورآہستہ یابلند پڑھنے میں اپنے وظیفہ کے مطابق عمل کرے۔ مسئلہ۱۶۱۹۔ میت کی قضانمازوں کے بارے میں اگرمعلوم ہوکہ کس ترتیب سے قضاہوئی تھی توضروری ہے کہ ترتیب سے پڑھاجائے اوراگرترتیب کاعلم نہ ہوتوترتیب کاخیال رکھناضروری نہیں ہے مگرایک دن کی ظہراورعصرکی نمازیامغرب وعشاء کی نمازان میںترتیب بہرحال ضروری ہے۔ مسئلہ۱۶۲۰۔ اگرمیت کی نمازکے لئے متعدد لوگوں کواجیربنایاجائے توہرایک کے لئے کوئی وقت معین کرناچاہئے، مثلاایک سے قراردادکی جائے کہ تم کوصبح سے لے کر ظہرتک قضانمازیں میت کی پڑھنی ہوں گی اوردوسرے سے ظہرسے لیکر رات تک کی شرط کرلی جائے، نیزہرایک اجیرکے لئے جونمازاس نے پڑھنی ہویاعصرسے اوراسی طرح ان کے ساتھ طے کرے کہ ہرمرتبہ ایک دن کی نمازوں کوپوراکریں اوراگرناقص چھوڑدیں توحساب میں شامل نہ کرے اورجب دوبارہ پڑھناچاہیں توایک دن رات کی نمازوں کو اول سے شروع کرے۔ مسئلہ۱۶۲۱۔ اگرکوئی اجیربن جائے کہ مثلاایک سال میں میت کی نمازیں ختم کرلے، اب اگروہ ایک سال ختم ہونے سے پہلے سے مرجائے توجن نمازوں کے متعلق علم ہوکہ اس نے نہیں پڑھی بناء براحتیاط واجب انہیں دوبارہ کسی اوراجیرسے پڑھواناچاہئے اورجن نمازوں کے متعلق احتمال ہوکہ اس نے نہیں پڑھیں ان کے لئے بھی احتیاط واجب کی بناپراجیربنایاجائے۔ مسئلہ۱۶۲۲۔ اگراجیراجرت پرلئے ہوئے نمازوروزہ کوپوراکئے بغیرمرجائے اورپوری اجرت پہلے لے چکاہوتواگراس سے یہ شرط کرلی گئی ہوکہ وہی تمام نمازوں کواداکرے توجتنی نمازیں رہ گئی ہیں ان کی اجرت مردہ اجیرکے مال سے لے لی جائے اوراگرایسی شرط نہیں کی گئی تھی توورثاء کوچاہئے کہ اس کے مال سے کسی کواجیرکریں تاکہ باقیماندہ نمازیں وہ پڑھے ا وراگرمردہ اجیرکے پاس کوئی مال نہ ہوتوپھرورثاء پرکچھ واجب نہیں ہے، لیکن ان کے لئے بہترہے کہ میت کے قرض اداکریں۔ مسئلہ۱۶۲۳۔ اگر اجیرعمل تمام کرنے سے پہلے مرجائے اوراس پربھی اپنی قضانمازیں ہوں توپہلے اس مرنے والے اجیرکے مال سے وہ نمازیں جواجرت پر پڑھوائی جائیں کہ جن کی وہ اجرت لے چکاتھا، اب اگران کی اجرت دینے کے بعدکچھ رقم بچ جائے اوراجیروصیت کرگیاہوکہ اس کی اپنی قضانمازیں پڑھوائی جائیں اوراس کے وارث بھی اجازت دیں تواس اجیرکی اپنی تمام نمازوں کے لئے کسی کواجیربنایاجائے اوراگروارث نے اجازت نہ دی ہوتواس مال کے تیسرے حصے کو اس کی نمازوں کے پڑھوانے پرخرچ کیاجائے۔ روزے کے احکاممسئلہ۱۶۲۴۔ روزہ یہ ہے کہ فرمان خداوندی کی اطاعت کے لئے اذان صبح سے لے کر مغرب تک روزے کوباطل کرنے ولی چیزوں سے اجتناب کیاجائے، اس کی تفصیل آئندہ مسائل میں ہوگی۔ نیتمسئلہ۱۶۲۵۔ نیت کے لئے نہ تواس کازبان پرجاری کرناضروری ہے اورنہ دل سے گزارنا صرف اتنانظرمیں رکھناکافی ہے کہ اطاعت خداکے لئے اذان صبح سے مغرب تک روزہ توڑنے والی کسی چیزکااستعمال نہیں کرے گا اوراذان صبح سے کچھ پہلے اورمغرب کے تھوڑی دیربعد تک مفطرات سے اجتناب کرے تاکہ یقین حاصل ہوجائے کہ اس پوری مدت میں روزہ رہاہے۔ مسئلہ۱۶۲۶۔ واجب ومعین روزے میں جیسے رمضان المبارک کاروزہ اگرابتداء شب سے لے کر اذان صبح تک کسی وقت بھی کل روزہ رکھنے کی نیت کرے توبلااشکال ہے، اوراگر بھول جائے کہ رمضان کاروزہ ہے یاکوئی اورواجب معین کااوراذان ظہرسے پہلے متوجہ ہوجائے تواگرروزہ کوباطل کردینے والاکوئی کام ا نجام نہیں دیاہوتونیت کرے اوراس کاروزہ صحیح ہوگا، اوراگرکوئی ایساکام جوروزے کوباطل کردیتاہے اس سے سرزدہوچکاہویاظہرکے بعدمتوجہ ہوتواس کاروزہ باطل ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ مغرب تک ایساکوئی کام انجام نہ دے جوروزے کوباطل کردیتاہے اوراس روزے کی قضاء بھی بجالائے، لیکن مستحبی روزے کی نیت کاوقت رات کے شروع سے لے کردوسرے دن مغرب ہونے سے پہلے تک رہتاہے کہ وہ نیت کرسکے لہذااگر اس فاصلہ میں کوئی ایساکام نہ کرے جس سے روزہ باطل ہوتومستحبی روزہ کی نیت کرسکتاہے لہذا اورروزہ صحیح ہے۔ مسئلہ۱۶۲۷۔ اگرروزہ کی نیت کے بغیرسوجائے اوراذان ظہرسے پہلے جاگے اوروہ فورا نیت کرے تواس کاروزہ صحیح ہوگا چاہے وہ روزہ واجب ہویامستحب لیکن اگرظہرکے بعدبیدارہوتوپھرواجب روزہ کی نیت نہیں کرسکتا۔ مسئلہ۱۶۲۸۔ اگرکوئی رمضان کے علاوہ کوئی دوسرا روزہ رکھناچاہتاہے تواس کومعین کرناہوگا، مثلانیت کرے کہ قضا کاروزہ یانذرکاروزہ رکھتاہوں لیکن رمضان میں یہی کافی ہے کہ نیت کرے کل روزہ رکھوں گا، بلکہ اگراسے معلوم نہیں ہے کہ یہ رمضان ہے یامعلوم تھامگربھول گیااوردوسرے کسی روزے کی نیت کرلی تب بھی وہ رمضان کاہی روزہ شمارہوگا۔ مسئلہ۱۶۲۹۔ اگرعلم ہوکہ رمضان کامہینہ ہے اورپھرجان بوجھ کررمضان کے علاوہ کسی اورروزہ کی نیت کرلے توپھروہ روزہ نہ رمضان کاشمارہوگا اورنہ ہی وہ روزہ جس کااس نے قصدکیاتھا۔ مسئلہ۱۶۳۰۔ اگراذان صبح سے پہلے نیت کرلے اوربعدمیں مست ہوجائے اوردن میں ہوش آئے اورکوئی کام روزہ کے خلاف نہ کیاہوتواحتیاط واجب ہے کہ اس دن کاروزہ تمام کرے اوراس کی قضاء بھی کرے۔ مسئلہ۱۶۳۱۔ اگراذان صبح سے پہلے نیت کرلے اوربے ہوش ہوجائے اوردن میں ہوش آجائے تواحتیاط واجب یہ ہے کہ اس دن کاروزہ تمام کرے اوراگر تمام نہیں کیاتواس کی قضابجالائے۔ مسئلہ۱۶۳۲۔ اگراذان صبح سے پہلے نیت کرلے اورسوجائے اورمغرب کے بعد بیدارہوجائے تواس کاورزہ صحیح ہے۔ مسئلہ۱۶۳۳۔ اگررمضان کی پہلی تاریخ سمجھ کرپہلی کی نیت سے روزہ رکھے لیکن بعدمیںاسے معلوم ہوجائے کہ دوسری یاتیسری تھی تواس کاروزہ صحیح ہے۔ مسئلہ۱۶۳۴۔ اگرکسی کومعلوم نہ ہویابھول جائے کہ رمضان ہے اورروزہ نہ رکھے اورظہرسے پہلے متوجہ ہوتواگرکوئی روزہ کوباطل کرنے والاکام بجانہ لایاہوتو اس کاروزہ باطل ہے لیکن مغرب تک روزہ باطل کرنے والے کسی کام کاارتکاب نہ کرے اوررمضان کے بعد اس کی قضاکرے۔ مسئلہ۱۶۳۵۔ بچہ اگراذان صبح سے بالغ ہوجائے توروزہ رکھے اوراگراذان کے بعدبالغ ہوتواس دن کاروزہ اس پرواجب نہیں ہے۔ مسئلہ ۱۶۳۶۔ اجارہ پرروزہ رکھنے والااپنے لئے مستحبی روزہ رکھ سکتاہے لیکن جس کے ذمہ ماہ رمضان کے قضاروزے ہوں اس کے لئے مستحبی روزہ رکھناجائز نہیں ہے، اورجس کے ذمہ کوئی دوسرا واجب روزہ ہواس کے لئے بنابراحتیاط واجب روزہ رکھناجائزنہیں ہے، لیکن اگربھول کر مستحبی روزہ رکھ لے اورظہر سے پہلے یادآجائے توواجب روزہ کی نیت کرسکتاہے اوراگرظہرکے بعدہوتواس کاروزہ باطل ہے اوراگر مغرب کے بعدیادآجائے تواس کاروزہ صحیح ہے۔ مسئلہ۱۶۳۷۔ ماہ رمضان میں ظہرسے پہلے مسلمان ہوجانے والے کافر پربنابراحتیاط واجب روزہ واجب ہوجاتاہے اوراگرروزہ نہیں رکھاتواس کی قضاکرے۔ مسئلہ۱۶۳۸۔ ماہ رمضان میں اگرمریض ظہرسے پہلے اچھاہوجائے اوراس وقت روزہ باطل کرنے والاکوئی ایساکام انجام نہ دیاہوتوروزہ کی نیت کرلے لیکن اگر ظہرکے بعداچھاہوتواس دن کاروزہ واجب نہیں ہے۔ مسئلہ۱۶۳۹۔ ماہ رمضان میں ہررات کو دوسرے دن روزہ رکھنے کی نیت کرلیناکافی ہے لیکن بہترہے کہ اس کے علاوہ پہلی رات کوپورے مہینہ کی بھی نیت کرلے۔ مسئلہ۱۶۴۰۔ یوم الشک، یعنی جس دن شک ہوکہ آج پہلی رمضان ہے یاتیسویں شعبان، تووہ روزہ واجب نہیں ہے اوراگرروزہ رکھناچاہے توماہ رمضان کی نیت سے نہیں رکھ سکتالیکن اگرقضایااس جیسے کسی روزہ کی نیت کرے اورچنانچہ بعدمیں معلوم ہوجائے کہ وہ دن رمضان کاتھاتووہ رمضان کاشمارہوگا۔ مسئلہ۱۶۴۱۔ اگریوم الشک کادن قضاکی نیت سے یامستحبی روزہ کی نیت سے روزہ رکھ لے اوردن میں کسی وقت معلوم ہوجائے کہ آج رمضان ہے توپھر اس کوروزہ رمضان کی نیت کرنی پڑے گی اگرچہ ظہرکے بعدملتفت ہو، لیکن اگراس مشکوک دن میں رمضان کی نیت سے روزہ رکھے توباطل ہے اگرچہ فی الواقع رمضان ہی ہو۔ مسئلہ۱۶۴۲۔ اگرماہ رمضان یادوسرے معین واجب روزہ میں روزہ کی نیت روگردان ہوجائے تواس کاروزہ لیکن اگرروزہ باطل کرنے والے کسی کام کو بجالانے کی نیت کرے، اگربجانہ لائے اس کاروزہ صحیح ہے، اسی طرح مستحبی روزے اورغیرمعین واجبی روزے میں اگر ظہرسے پہلے دوبارہ نیت کرے تواس کاروزہ صحیح ہے۔ روزہ کوباطل کرنے والی چیزیںمسئلہ ۱۶۴۳۔ روزہ کوباطل کرنے والی چیزیںدس ہیں : ۱۔کھانا ۲۔ پینا۔ ۳۔ جماع۔ ۴۔ استمناء(یعنی اپنے ساتھ کوئی ایساکام کرنا جس سے منی باہرآجائے)۔ ۵۔ رسول خدا اورآئمہ پرجھوٹ باندھنا۔ ۶۔ غلیظ غبارکاحلق میں پہنچانا۔ ۷۔ سرپانی میں ڈبونا۔ ۸۔ جنابت یاحیض یانفاس پرصبح تک باقی رہنا۔ ۹۔ کسی بہنے والی چیزسے حقنہ (اینما) کرنا۔ ۱۰۔ جان بوجھ کرقے کرنا۔ ان کی شرح آئندہ مسائل میں بیان ہوگی۔ ۱۔۲۔ کھانااورپینامسئلہ۱۶۴۴۔ جان بوجھ کرکھانے پینے سے روزہ باطل ہوجاتاہے خواہ وہ عام طورسے کھائی جا نے والی چیزہوجیسے روٹی، پانی یاعام ط طورسے کھانے پنیے والی چیزنہ ہوجیسے خاک اوردرخت کاشیرہ، خواہ کم ہویازیادہ حتی کہ اگرسوئی کے دھاگے کومنہ کے پانی سے ترکر ے اوردوبارہ منہ میں لے جائے اوراس کی تری کونگل لے تواس کاروزہ باطل ہوجائے گا، اسی طرح مسواک کی تری، البتہ اگریہ رطوبت بہت کم ہوجوتھوک میں گھل مل کر ختم ہوجائے توروزہ باطل نہ ہوگا، اسی طرح دانتوں میں جوغذاباقی رہ جائے جب دانتوں سے باہرنکل آئے اسے نگلنے پربھی روزہ باطل ہوجاتاہے۔ مسئلہ۱۶۴۵۔ بھول کرکھانے پینے سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔ مسئلہ۱۶۴۶۔ ان انجکشنوں اورسرموں سے پرہیزکرناچاہئے جوغذاکے بجائے استعمال ہوتے ہیں، ہاں عضوکوسن کردینے والے انجکشن یادواکے انجکشن کے لگوانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ مسئلہ۱۶۴۷۔ (سحری) کھاتے وقت اگرمعلوم ہوجائے کہ صبح ہوگئی توجوکچھ منہ میں ہواگل دے اوراگرعمدا نگل لے توروزہ باطل ہے اورکفارہ بھی واجب ہے۔ مسئلہ۱۶۴۸۔ روزہ داراگرناقابل برداشت حدتک پیاساہوجائے اوربیماریاہلاک ہونے کاخوف ہوتوبقدرضرروت پانی پی سکتاہے لیکن اس کاروزہ باطل ہوجائے گا اوراگر رمضان کامہینہ ہے تواسے چاہئے کہ دن کے بقیہ حصے میں وہ کام کرنے سے پرہیزکرے جن سے روزہ باطل ہوجاتاہے۔ مسئلہ۱۶۴۹۔ روزہ رکھنے والے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ صبح کی اذان سے پہلے دانتوں کومانجھے اوران میں خلال کرے اگرچہ احتمال ہوکہ دانتوں کے بیچ میں رہ جانے والی غذادن میں حلق سے اترجائے گی، لیکن اگرمعلوم ہوکہ دانتوں کے بیچ میں رہ جانے والی غذا دن میں حلق سے اترجائے گی توصبح کی اذان سے پہلے دانتوں کوصاف کرے اورخلال کرے اوراگرایسانہیں کیاتوروزہ باطل ہوگاچاہے کوئی چیزحلق سے اترجائے کہ نہیں۔ مسئلہ۱۶۵۰۔ تھوک کونگلناروزے کوباطل نہیں کرتاچاہے وہ تھوک کھٹاس یااسی طرح کی کسی چیزکے تصورسے منہ میںجمع ہوگیاہو۔ مسئلہ۱۶۵۱۔ سروسینہ کے اختلاط(بلغم وغیرہ) اگرمنہ کے اندرتک نہیں پہنچے توان کے نگلنے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اکرمنہ کے اندرتک پہنچ جائیں تواحتیاط واجب ہے کہ حلق سے نیچے نہ اتاریں۔ مسئلہ۱۶۵۲۔ بچہ کے لئے کھانے کوچبانا اوراسی طرح کھانے وغیرہ کوچکھناپانی یادوا سے منہ کودھونے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ کوئی چیزحلق سے نہ اترے اوراگر بغیر ارادہ حلق سے نیچے چلی جائے توکوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر پہلے سے جانتاہوکہ بے اختیار منہ میں چلی جائے توکوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر پہلے سے جانتاہوکہ بے اختیار منہ میں چلی جائیگی توروزہ باطل ہے ہی قضاوکفارہ بھی ہے۔ مسئلہ۱۶۵۳۔ کمزوری کی وجہ سے روزہ چھوڑا نہیں جاسکتا، ہاں اگر کمزوری اس حد تک ہوجائے کہ اس کابرداشت کرنا بہت ہی مشکل ہوتوروزہ کھاسکتاہے۔ ۳۔ جماعمسئلہ۱۶۵۴۔ جماع (عورت سے ہم بستری کرنا) دونوں کے روزے کوباطل کردیتاہے، چاہے قبل میں ہویادبرمیں، چھوٹے سے ہویابڑے سے، چاہے صرف ختنے کی مقدارکے برابرداخل ہواہواورمنی بھی نہ نکلی ہو، لیکن اگراس سے کم داخل ہواہواورمنی بھی نہ نکلے توروزہ باطل نہیں ہوگا، لیکن جس شخص کاآلت تناسل کٹاہواہواگر وہ ختنہ گاہ جتنی مقدارداخل کرے اوردخول صادق آئے تواس کاروزہ باطل ہوجائے گا۔ مسئلہ۱۶۵۵۔ اگرکوئی بھولے سے جماع کرے یاخواب کی حالت میں ہویاجماع پراس قدرمجبورکیاجائے کہ اس کااختیار نہ رہے توروزہ باطل نہیں ہوتا لیکن اگر جماع کرتے ہوئے یادآجائے یامجبوری ختم ہوجائے توفورا جماع کوترک کردے ورنہ اس کاروزہ باطل ہوجائے گی۔ مسئلہ۱۶۵۶۔ اگرشک ہوکہ ختنے کی مقداربرابرداخل ہواتھا یانہیں تواس کاروزہ صحیح ہے، اسی طرح عضوتناسل کٹاہوا آدمی اگر شک کرے دخول ہواہے یانہیں تواس کاروزہ صحیح ہے۔ ۴۔ استمنامسئلہ۱۶۵۷۔ اگرروزہ داراپنے ساتھ کوئی ایساکام کرے جس سے منی باہرآجائے تواس کاروزہ باطل ہوجاتا ہے لیکن اگر بے اختیاری طورسے منی نکل آئے تواس کاروزہ باطل نہیں ہوگا۔ مسئلہ۱۶۵۸۔ روزہ دارکوچاہئے معلوم ہو کہ دن میں سونے سے احتلام ہوجائے گا پھربھی وہ سوسکتاہے خاص طورپرجب نہ سونا اس کے لئے تکلیف کاباعث ہو، اوراگرمحتلم ہوجائے توکوئی اشکال نہیں ہے۔ مسئلہ ۱۶۵۹۔ جس روزہ دارکواحتلام ہواہووہ پیشاب یاپیشاب کے بعداستبراء کرسکتاہے، لیکن اگراس کوعلم ہوکہ اس کام سے باقی ماندہ منی نکل آئے گی اگر غسل کرلیاہوتواستبراء نہیں کرسکتا، اوراگرمنی نکلتے وقت روزہ دارجاگ جائے تومن روکناواجب نہیں ہے۔ مسئلہ۱۶۶۰۔ جس روزہ دارکواحتلام ہواہے اگروہ جانتاہے کہ غسل سے پہلے پیشاب نہ کرنے کی صورت میں غسل کے بعدمنی باہرآجائے گی توبہترہے کہ پہلے پیشاب کرے اگرچہ واجب نہیں ہے ۔ مسئلہ۱۶۶۱۔ اگرروزہ دارمنی نکالنے کے ارادہ سے استمناء کرے تواگرمنی نہ نکلے اس کاروزہ باطل نہیں ہے۔ مسئلہ۱۶۶۲۔ اگرروزہ داراپنی بیوی سے بغیرمنی نکلنے کے قصدکے چھیڑ چھاڑ کرے تواگراس کی عادت ہوکہ اتنی چھیڑ چھاڑ سے منی نکل آتی ہواورمنی نکل آئے تواس کاروزہ باطل ہے، اوراگر اس کی عادت بھی نہ ہوکہ اتنی چھیڑ چھاڑ سے منی نکل آتی ہولیکن اتفاقا منی نکل آئے توپھر روزہ میں اشکال ہے، البتہ اگروہ پہلے سے مطمئن ہوکہ منی باہرنہیںآئے گی تواشکال نہیں ہے۔ ۵۔خداورسول پرجھوٹاالزام لگانامسئلہ۱۶۶۳۔ اگرروزہ دارخداورسول کی طرف یاائمہ معصومین کی طرف جھوٹ کی نسبت دے خواہ زبان سے یالکھ کریااشارے سے یاکسی اورطریقے سے تو اس کاروزہ باطل ہے چاہے وہ فورا توبہ کرلے، اوراحتیاط واجب کی بناپرباقی انبیاء کرام اورحضرت فاطمہ زہرا کی طرف جھوٹ نسبت دینے کابھی یہی حکم ہے۔ اگرکوئی ایسی روایت نقل کرناچاہتاہے جس کے سچ یاجھوٹ ہونے کا علم نہیں ہے تواحتیاط واجب یہ ہے کہ جس سے اس روایت کوسناہے یاجس کتاب میں پڑھاہے اس کاحوالہ دےدے ، مثلا فلاں راوی نے یہ کہا یافلاں کتاب میں یہ لکھاہے کہ رسول خدانے فرمایا،لیکن اگروہ خودبھی بطورقطع کسی خبرکوبیان کرے تواس کاروزہ باطل نہیں ہوگا اگرچہ اس کے جھوٹاہونے کاظن رکھتاہویااحتمال دیتاہو۔ مسئلہ۱۶۶۴۔ اگرروزہ دارکسی بات کے بارے میں اعتقاد رکھتاہوکہ وہ واقعی قول خدا یاقول پیغمبرہے اوراسے اللہ تعالی یانبی اکرم سے منسوب کرے اوربعدمیں معلوم ہوکہ یہ نسبت صحیح نہ تھی تواس کاروزہ صحیح ہے۔ مسئلہ۱۶۶۵۔ اگرکسی بات کے بارے میں جانتے ہوئے کہ جھوٹ ہے خدایا رسول اکرم کی طرف نسبت دے اوربعدمیں اسے پتہ چلے کہ جوکچھ اس نے کہاتھا وہ درست تھا تواس کاروزہ صحیح ہے۔ مسئلہ۱۶۶۶۔ اگردوسرے کے گڑھے ہوئے جھوٹ کوخدایارسول کی طرف جان بوجھ کرمنسوب کرے تواس کاروزہ باطل ہے لیکن اگراس سے نقل کرے تواس کاروزہ اشکال نہیں ہے۔ مسئلہ۱۶۶۷۔ اگرروزہ دارسے سوال کیاجائے کہ کیارسول اکرم نے ایسافرمایاہے؟ اورعمداہاں کہے جب کہ رسول نے اس کو نہ کہایاعمدا (نہیں) کہے جبکہ رسول اکرم نے فرمایاہوتواس کے روزہ میںا شکال ہے۔ مسئلہ۱۶۶۸۔ اگرخداورسول کی طرف سے کوئی درست بات کونقل کرے لیکن بعد میں یہ کہے کہ میں نے جھوٹ کہاتھایارات کوان کی طرف کسی جھوٹ کو نسبت دے لیکن دن میں جب کہ روزہ سے ہوکہہ دے جوبات میں نے رات کوکہی تھی وہ سچ ہے تواس کاروزہ باطل ہوجائے گا۔ ۶ ۔ غلیظ غبار حلق تک پہنچانامسئلہ۱۶۶۹۔ غلیظ غبارکوحلق تک پہنچانے سے روزہ باطل ہوجاتاہے، چاہے ایسی چیزہوجس کاکھاناحلال ہو، مثلا آٹایاحرام ہو، مثلا(مٹی)۔ مسئلہ۱۶۷۰۔ احتیاط واجب ہے کہ روزہ دارسگریٹ، تمباکو ودیگر دخانیات کے استعمال سے پرہیز کرے اورغلیط بھاپ بھی حلق میں نہ پہنچائے۔ مسئلہ۱۶۷۱۔ اگرہوایاجھاڑو دینے سے غلیظ غباراٹھے اوراحتیاط نہ کرنے کی وجہ سے حلق میں پہنچ جائے اگریقین یاگمان ہوکہ غبار یادھواں حلق تک نہیں پہنچے گا توروزہ صحیح ہے، اسی طرح اگراپنے روزہ دارہونے کوبھول جائے اوراحتیاط نہ کرے یابے اختیار اوربغیر ارادہ حلق میں پہنچ جائے توروزہ باطل نہیں ہوتا۔ ۷۔ سرکوپانی میں ڈبونامسئلہ ۱۶۷۲۔ احتیاط واجب کی بناء پر روزہ دارپورے سرکوپانی میں جان بوجھ کرنہ ڈبوئے اوراگر ڈبویااس دن کی قضابجالائے لیکن اگر پورابدن اورتھوڑا سا سرپانی کے اندرہوتوروزہ باطل نہ ہوگا۔ مسئلہ۱۶۷۳۔ اگرآدھے سرکوایک دفعہ اورآدھے سرکودوسری دفعہ پانی میں ڈبوئے تواس کاروزہ صحیح ہے۔ مسئلہ۱۶۷۴۔ اگرشک کرے کہ اس کاپوراسر پانی میں ڈوباہے یانہیں تواس کا روزہ صحیح ہے۔ مسئلہ۱۶۷۵۔ اگرپورے سرکو پانی میں ڈبودے صرف تھوڑے سے بال پانی سے باہوہوں توروزہ باطل ہوگا۔ مسئلہ۱۶۷۶۔ اگرسرکوگلاب کے عرق میں ڈبوئے تواحتیاط واجب کی بناپرروزہ باطل ہوجائے گاچنانچہ احتیاط واجب یہ ہے کہ سرکو دوسرے مضاف پانی اوربہنے والی چیزوں میںڈبونے سے روزہ باطل نہیں ہوگا۔ مسئلہ۱۶۷۷۔ اگرروزہ دارغیراختیاری طورسے پانی میں گرجائے یاکوئی اس کوپانی میں دھکیل دے اوراس کاسرپانی میں ڈبوب جائے یابھولے سے خودہی سرکوپانی میں ڈبولے توروزہ باطل نہیں ہوگا۔ مسئلہ۱۶۷۸۔ اگرعادت یہ ہو کہ پانی میں گرنے سے اس کاسر پانی میں ڈوب جاتا ہوتواگر اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اپنے آپ کوپانی میں ڈال دے اورپوراسرڈوب جائے تواس کاروزہ باطل ہوگا۔ مسئلہ۱۶۷۹۔ جوشخص روزہ دار ہونے کوبھول جائے اورتمام سر پانی میں ڈبودے یاکوئی شخص زبردستی کسی کے سر کوپانی میںڈبودے توجب بھی اس کویاد آجائے یاوہ شخص اپناہاتھ اس کے سرسے اٹھالے توفورا سرپانی سے باہر نکال لے اوراگر باہر نہیں نکالاتواس کاروزہ باطل ہوجائے گا۔ مسئلہ۱۶۸۰۔ اگرروزہ یاد نہ ہواوربھولے سے غسل کی نیت سے سرکوپانی میں ڈبوے توروزہ اورغسل دونوں صحیح ہیں۔ مسئلہ۱۶۸۱۔ جس شخص کوعلم ہوکہ وہ روزہ سے ہے پھرجان بوجھ کر غسل کی نیت سے سرکوپانی میں ڈبودے تواگراس کاروزہ واجب معین ہے جیسے رمضان تواحتیاط واجب کی بناپر غسل دوبارہ کرے اورروزہ کی بھی قضابجالائے، لیکن اگرروزہ مستحبی ہویا واجب غیرمعین ہو(مثلاکفارہ کاروزہ) توپھر غسل صحیح ہوگا لیکن روزہ باطل ہوجائے گا۔ مسئلہ۱۶۸۲۔ اگرکسی کوڈوبنے سے بچانے کے لئے ا پناپوراسر پانی میں ڈبودے تواگرچہ اس کوغرق ہونے سے بچاناواجب ہی کیوں نہ ہوپھر بھی اس کاروزہ باطل ہوجائے گا۔ ۸۔ جنابت ،حیض، نفاس پراذان صبح تک باقی رہنامسئلہ۱۶۸۳۔ اگرمجب صبح تک جان بوجھ کر غسل نہ کرے یااگر اس کاوظیفہ تیمم کرناتھا لیکن جان بوجھ کرتیمم نہ کرے تواس کاروزہ باطل ہوگا۔ مسئلہ۱۶۸۴۔ اگرماہ رمضان کے علاوہ کسی اورواجب روزہ میں اذان صبح تک غسل وتیمم نہ کرے تواگرعمدا نہ ہوبلکہ مثلا کوئی رکاوٹ بن جائے توروزہ صحیح ہے۔ مسئلہ۱۶۸۵۔ جوشخص مجنب ہوگیاہو اوراس کاواجب روزہ کہ جس کاوقت معین ہے، مثلا رمضان کاروزہ رکھناہولیکن جان بوجھ کرغسل میں تاخیرکردے یہاں تک غسل کاوقت تنگ ہوجائے تووہ تیمم کرکے روزہ رکھ سکتاہے اوراس کاروزہ بھی صحیح ہے۔ مسئلہ۱۶۸۶۔ اگرماہ رمضان میں مجنب غسل کرنا بھول جائے اورایک دن گزرجانے کے بعدیادآئے تواس کوچاہئے کہ اس روزہ کی قضاکرے، اوراگر چنددن گزرنے کے بعدیادآئے تواس کوچاہیے کہ اس روزہ کی قضاکرے، اوراگر چنددن گزرجانے کے بعدیادآجائے تواس کواتنے روزے قضاکرنے ہوں گے جویقینی طورپربغیرغسل کے رکھے ہیں، مثلااگر معلوم نہ ہوکہ تین دن بغیرغسل کے رہاہے یاچاردن توتین دن کے روزوں کی قضاکرے۔ مسئلہ ۱۶۸۷۔ جوشخص ماہ رمضان کی رات میں غسل وتیمم کاوقت نہیں رکھتااگر خود کومجنب کرے تواس کاروزہ باطل ہے اوراس پرقضااورکفارہ دونوں واجب ہوں گے لیکن اگرتیمم کے لئے وقت ہواوراپنے آپ کومجنب کرے اس کاروزہ تیمم کے ساتھ صحیح ہے اورگناہ کاربھی نہیں ہوگا۔ مسئلہ۱۶۷۸۔ جوشخص ماہ رمضان کی رات میں جنب ہواورجانتاہوکہ اگرسوجائے گا توصبح تک بیدارنہ ہوپائے گا تواس کوسونانہیں چاہئے اوراگروہ سوجائے اورصبح تک بیدارنہ ہوتواس کاروزہ باطل ہے اوراس پرکفارہ اورقضا دونوں واجب ہوگا۔ مسئلہ۱۶۸۹۔ اگرمجنب رمضان کی رات میں سوجائے اورپھرجاگ جائے تواگر احتمال ہوکہ دوبارہ سوجائے گاتوغسل کے لئے بیدارہوجائے گا عادت کے مطابق تواس صورت میں یہ شخص سوسکتاہے۔ مسئلہ۱۶۹۰۔ جوشخص رمضان کی رات میں مجنب ہواورجانتاہویااسے احتمال ہوکہ اگرسوجائے گاتواذان صبح سے پہلے جاگ جائے گا اوریہ عزم محکم تھاکہ تھاکہ جاگنے کے بعدغسل کرے گااوریہ طے کرکے سوجائے اوراذان تک بیدارنہ ہوتواس کاروزہ صحیح ہے۔ مسئلہ۱۶۹۱۔ جب کوئی شخص ماہ رمضان کی رات میں مجنب ہواہواوراس علم ہویااحتمال ہوکہ اگر وہ سوجائے تواذان صبح سے پہلے بیدارہوجائے گا لیکن اس بات سے غافل ہوکہ جاگنے کے بعدغسل کرناچاہئے اس صورت میں سوجائے اوراذان صبح تک بیدارنہ ہوتواس کاروزہ صحیح ہے۔ مسئلہ۱۶۹۲۔ جوشخص ماہ رمضان میں مجنب ہے اوراسے علم یااحتمال ہوکہ اذان صبح سے پہلے بیداہوجائے گااورجاگنے کے بعد غسل کرنے کاارادہ رکھتا ہویامردد ہوکہ وہ غسل کرے یانہیں چنانچہ اگرسوجائے اوربیدارنہ ہوتواس کاروزہ باطل ہے۔ مسئلہ۱۶۹۳۔ اگرمجنب ماہ رمضان میں سوجائے اوربیدارہواوراس کوعلم یااحتمال ہوکہ اگردوبارہ سوجائے تواذان صبح سے پہلے بیدارہوجائے گا اوریہ بھی ارادہ رکھتاہوکہ اٹھنے کے بعدغسل کرے گا، چنانچہ وہ دوبارہ سوجائے اوراذان تک بیدارنہ ہوتواس کوروزہ کی قضاکرناپڑے گی اوراسی طرح ہے اگر دوسری دفعہ نیند سے بیدارہولیکن پھرتیسری دفعہ سوجائے اوراحتیاط واجب کی بناپر تیسر دفعہ کفارہ بھی واجب ہے۔ مسئلہ۱۶۹۴۔ جس نیند میں احتلام ہواہو وہ پہلی نیند شمارنہیں ہوگی لیکن اگراس نیند سے بیدارہوکر پھر سوجائے تووہ پہلی نیند شمارہوگی۔ مسئلہ۱۶۹۵۔ اگرروزہ دارکودن میں احتلام ہوجائے تواس پرفورا غسل کرنا واجب نہیں ہے لیکن احتیاط مستحب ہے کہ فورا غسل کرے۔ مسئلہ۱۶۹۶۔ اگررمضان میں اذان صبح کے بعد بیداہواوراپنے کومحتلم پائے تواگرچہ اس کوعلم ہوکہ یہ احتلام اذان سے پہلے ہواہے پھربھی اس کاروزہ صحیح ہے۔ مسئلہ۱۶۹۷۔ جوشخص ماہ رمضان کے قضاروزے رکھناچاہتاہواگروہ اذان صبح تک جنب کی حالت میں باقی رہااگرچہ جان بوجھ کرایسانہ کرے تب بھی اس کاروزہ باطل ہے۔ مسئلہ۱۶۹۸۔ جوشخص ماہ رمضان کیے قضاروزے رکھناچاہتاہواگراذان صبح سے پہلے ہواہے تواگران قضاروزو ں کاوقت تنگ ہو، مثلاپانچ روزے اس کوقضارکھنے ہوں اورماہ رمضان کے چاند میں بھی صرف پانچ دن باقی ہوں توبنابراحتیاط واجب اس دن کاروزہ رکھے اوررمضان کے بعداس روزے کوپھررکھے اوراگران روزوں کاوقت تنگ نہ ہوتوپھرکسی اوردن روزے رکھے۔ مسئلہ۱۶۹۹۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ اگرواجب روزہ کاوقت معین ہوتووہ بھی ماہ رمضان کے روزہ کی طرح ہے کہ اگر روزہ دار جان بوجھ کر جنابت کی حالت میں اذان صبح تک باقی رہے اس کاروزہ باطل ہوگا، بلکہ کفارہ بھی ہوتاہے اگراس روزہ کاکفارہ ہو، مثلا نذرکاروزہ جوکفارہ رکھتاہے۔ مسئلہ۱۷۰۰۔ اگررمضان اوراس کی قضا کے علاوہ کسی دوسرے واجب روزے میں صبح کی اذان تک غیرعمدی طورپر مجنب رہے تو اس کاروزہ صحیح ہے چاہے وقت معین ہویانہ ہو۔ مسئلہ۱۷۰۱۔ اگرعورت اذان صبح سے پہلے حیض یانفاس سے پاک ہوجائے اورجان بوجھ کرغسل یااس کاوظیفہ شرعی تیمم ہواوروہ تیمم نہ کرے تواس کاروزہ باطل ہے۔ مسئلہ۱۷۰۲۔ اگرعورت اذان صبح سے پہلے حیض یانفاس سے پاک ہوجائے اورغسل کرنے وقت باقی نہ ہو چنانچہ وہ کوئی واجب روزہ جیسے رمضان رکھنا چاہتی ہوتوتیمم کرے اس کاروزہ صحیح ہوگا اورصبح تک اس کوبیداررہنی چاہئے اوراگر کوئی مستحب روزہ یاکوئی واجب روزہ جس کاوقت معین نہ ہورکھناچاہتی ہوتوتیمم کے ساتھ روزہ نہیں رکھ سکتی۔ مسئلہ۱۷۰۳۔ اگرعورت اذان صبح کے قریب حیض یانفاس سے پاک ہواورغسل وتیمم دونوں کے لئے وقت باقی نہ ہویایہ کہ کوئی عورت صبح کی اذان کے بعد خبردارہوکہ وہ اذان صبح سے پہلے پاک ہوچکی تھی تواس کاروزہ رمضان اورواجب معین میںصحیح ہوگا، لیکن اگر رمضان کاقضا روزہ ہوتوپھر روزہ کے صحیح ہونے میں اشکال ہے۔ مسئلہ۱۷۰۴۔ اگرعورت اذان صبح کے بعد حیض یانفاس سے پاک ہویادن میں کسی وقت حیض یانفاس کاخون دیکھے اگر چہ مغرب کے نزدیک ہوتواس کاروزہ بطل ہے۔ مسئلہ۱۷۰۵۔ اگرعورت غسل حیض یانفاس کرنا بھول جائے اورایک یاکئی دنوں کے بعداسے یادآئے توجوروزہ وہ رکھ چکی ہے صحیح ہے اوراحتیاط مستحب کی بناپر ان کی قضابھی بجالائے۔ مسئلہ۱۷۰۶۔ اگرعورت اذان صبح سے پہلے ماہ رمضان میں حیض یانفاس سے پاک ہوجائے لیکن غسل کرنے میں اذان صبح تک کوتاہی کرے اوروقت کی تنگی میں تیمم بھی نہ کرے تواس کاروزہ باطل ہے، ہاںاگر کوتاہی نہ کرے، بلکہ منتظر ہوکہ عورتوں والے حمام کھل جائیں اگرچہ وہ اس صورت میںتین مرتبہ سوجائے اوراذان صبح تک غسل نہ کرے ، اب اگروہ تیمم کرچکی ہوتواس کاروزہ صحیح ہے۔ مسئلہ۱۷۰۷۔ مستحاضہ عورت اگر اپنے غسل کواحکام استحاضہ میں بیان کی گئی تفصیل کے مطابق بجالائے اس کاروزہ صحیح ہے۔ مسئلہ۱۷۰۸۔ جس کسی نے میت کوچھواہواوراس پرغسل مس میت واجب ہو وہ غسل مس میت کئے بغیر روزہ رکھ سکتاہے اوراگر روزہ کی حالت میں بھی میت کومس کرلے تواس کاروزہ باطل نہیں ہوگا۔ ۹۔ بہنے والی چیزوں سے انیمالینامسئلہ۱۷۰۹۔ بہنے والی چیزوں سے حقنہ لینا اگرچہ مجبوری کی وجہ سے ہویامثلا علاج وغیرہ کے لئے ہی کیوں نہ ہوتوروزہ کو باطل کردیتاہے، ا لبتہ شیاف (خشک چیزوں سے انیما) کااستعمال علاج کے لئے کوئی اشکال نہیں رکھتااور احتیاط واجب یہ ہے کہ ان چیزوں سے اجتناب کیاجائے جومشکوک ہیں کہ روان ہے یاخشک۔ ۱۰۔ جان بوجھ کر قے کرنامسئلہ۱۷۱۰۔ جان بوجھ کر قے کرنے سے روزہ باطل ہوجاتاہے، چاہے وہ مرض وغیرہ کی وجہ سے ہو، البتہ بے اختیاری طورسے یابھول کرقے کردینے سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔ مسئلہ۱۷۱۱۔ اگررات میں ایسی چیزکھائے جس کے بارے میں معلوم ہوکہ دن میں بے اختیارقے ہوجائے گی تواحتیاط واجب یہ ہے کہ اس روزہ کی قضاکرے۔ مسئلہ۱۷۱۲۔ اگرروزہ دارقے کوروک سکتاہے اوراس کے لئے ضرر اورمشقت کاباعث نہ ہوتواسے قے روکناچاہئے۔ مسئلہ۱۷۱۳۔ اگرروزہ دارکے حلق میں کوئی چیز(مکھی) چلی جائے چنانچہ وہ اس حدتک اندرچلی گئی ہواس کے نیچے لے جانے کونگلنانہ کہاجائے توضروری نہیں کہ اسے باہرنکالاجائے اوراس کاروزہ صحیح ہوگا، لیکن اگرمکھی اس حدتک اندرنہ گئی ہواوراس کانکالنا ممکن ہوتوضروری ہے کہ باہرنکالے اوراگراس کے نکالنے کی وجہ سے قے آجائے تواس روزہ کی قضابجالائے۔ مسئلہ۱۷۱۴۔ اگربھول کرکوئی چیزنگل جائے اوراس کے پیٹ میں پہنچنے سے پہلے اسے یادآجائے کہ وہ روزہ سے ہے تواگراس حدتک نیچے چلی گئی ہوکہ اگر اس کوپیٹ میں داخل کرے تواسے کھانانہیں کہاجاسکتاتوپھر اسے باہرنکالناضروری نہیں ہے اوراس کاروزہ بھی صحیح ہے، ا وراگر وہ چیزابھی حلق کی ابتداء یاوسط تک پہنچی ہوتواسے باہرنکالے اوراس پرقے کرناصادق نہیں آتا۔ مسئلہ۱۷۱۵۔ اگرکسی کویقین ہوکہ ڈکار لینے سے کوئی چیزباہرآجائے گی تواسے جان بوجھ کر ڈکارنہیں لیناچاہئے، ہاں اگراسے یقین نہ ہوتوپھر اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ مسئلہ ۱۷۱۶۔ اگرکوئی شخص ڈکارلے اورکوئی چیزبغیراختیارکے گلے یامنہ تک آجائے تواسے چاہئے کہ اس چیزکوباہرپھینک دے اوراگربغیراختیارکے اندر چلی جائے توپھراس کاروزہ صحیح ہے۔ روزہ کوباطل کرنے والی چیزوں کے احکاممسئلہ۱۷۱۷۔ اگرانسان عمدا اپنے ارادے واختیارسے ایساکام بجالائے جوروزہ کو باطل کردیتاہے تواس کاروزہ باطل ہوجائے گا، ہاں اگرعمدا نہ ہوتو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، چاہے رمضان کاروزہ ہویاغیررمضان، چاہے واجب ہویامستحب، لیکن مجنب اگراس تفصیل سے جومسئلہ (۱۶۰۹) میں گزرچکاہے صبح کی اذان تک سوجائے اورغسل نہ کرے تواس کاروزہ باطل ہے۔ مسئلہ۱۷۱۸۔ اگرروزہ دارسہوا ایساکام کرے جوروزہ کوباطل کردیتاہے اورپھر اس خیال سے کہ اس کاروزہ باطل ہوچکاہے عمدا دوبارہ مبطلات میں سے کوئی ایک کام بجالائے تواس کاروزہ باطل ہوجائے گا۔ مسئلہ۱۷۱۹۔ اگرکوئی چیزروزہ دارکے حلق میں زبردستی ڈالی جائے یااس کے سرکوپانی میں زبردستی ڈبودیاجائے تواس کاروزہ باطل نہیں ہوگا لیکن اگرکوئی شخص کسی کومجبورکرے کہ وہ خود اپنے روزہ کاباطل کردے، مثلا اس سے کہے کہ یہ غذا کھاؤ ورنہ تجھ کو مال، جانی نقصان اٹھاناپڑے گا اوروہ نقصان سے بچنے کے لئے وہ چیزکھالے تو اس کاروزہ باطل ہوجائے گا۔ مسئلہ۱۷۲۰۔ روزہ دارکوکسی ایسی جگہ نہیں جاناچاہئے کہ جس کے متعلق اسے علم ہوکہ اس کے منہ میں کوئی چیززبردستی ڈالی جائے گی یااسے مجبورکیاجائے گا کہ وہ اپنے روزہ کوباطل کرے، لیکن اگرجانے کاارادہ ہواورپھر نہ جائے یاجانے کے بعداس کے منہ میں کوئی چیزنہ ڈالی گئی تواس کاروزہ صحیح ہے، لیکن اگر مجبور وناچار ہوکرکوئی ایساکام کرے جس سے روزہ باطل ہوجاتاہے اوراس بات کاپہلے سے علم ہوتواس کاروزہ باطل ہوجائے گا۔ جوچیزیں روزہ دارکے لئے مکروہ ہیںمسئلہ۱۷۲۱۔ چندچیزیں روزہ دارکے لئے مکروہ ہیں ان میں سے یہ بھی ہیں: ۱۔ آنکھوں میں دواڈالنا۔ ۲۔ سرمہ لگانا اگراس کی بویامزہ حلق تک پہنچ جائے۔ ۳۔ ایسے کام کرنا جس سے کمزوری پیداہو مثلاخون نکالنا، حمام جانا۔ ۴۔ نسوارلینااگر معلوم نہ ہوکہ حلق تک پہنچ جائے گی، لیکن اگرمعلوم ہوکہ حلق تک پہنچ جائے گی توجائزنہیں ہے۔ ۵۔ خوشبودار گھاس کوسونگھنا۔ ۶۔عورت کا پانی میں بیٹھنا۔ ۷۔ خشک چیزوں سے حقنہ لینا۔ ۸۔ بدن پرپہنے ہوئے لباس کو بھگونا۔ ۹۔ دانت کانکلوانا اورہروہ کام کرنا جس سے منہ سے خون آجائے۔ ۱۰۔ تازہ لکڑی سے مسکواک کرنا۔ ۱۱۔ بیوی کوپیارکرنا جب کہ منی نکلنے کے قصدسے نہ ہو یاکوئی ایساکام کرے جس کی وجہ سے شہوت حرکت میں آجائے اوراگر یہ کام منی کے باہرآنے کے قصدسے بجالائے اورمنی نکل آئے تواس کاروزہ باطل ہوجائے گا۔ جہاں قضاوکفارہ دونوں واجب ہیںمسئلہ ۱۷۲۲۔ اگررمضان کے روزہ میں عمدا قے کرے توفقط اس کی قضا واجب ہے اوراگررات میں مجنب ہوجائے اورتین مرتبہ بیدارہوکہ سوجائے صبح تک جنابت پرباقی رہے یاعمدا حقنہ لے یاسرپانی میں ڈبوئے یاخداورسول پرجھوٹ باندھے توبنابراحتیاط واجب کفارہ بھی دے، ا وراگرجان بوجھ کر کوئی دوسرا ایساکام کرے جس سے روزہ باطل ہوجاتاہے تواس پرقضاوکفارہ دونوں واجب ہوگا۔ مسئلہ۱۷۲۳۔ اگرمسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ایساکام کرے جس سے روزہ باطل ہوجاتاہے تواگروہ مسئلہ معلوم کرسکتاتھا توبنابراحتیاط واجب اس پرکفارہ واجب ہوگااوراگرمسئلہ کاجاننا اس کے لئے ممکن نہیں تھا یامسئلہ کی طرف بالکل اس کاخیال نہ ہویایقین رکھتاہو کہ اس سے روزہ باطل نہیں ہوتا، تواس پرکفارہ واجب نہیں ہے۔ روزہ کاکفارہمسئلہ ۱۷۲۴۔ جس پررمضان کے روزے کاکفارہ واجب ہے اسے ایک غلام آزاد کرنا چاہئے یادومہینے متصل اس تفصیل کے ساتھ جومسئلہ بعدمیں بیان ہوگا روزے رکھے یاساٹھ فقیروں کواتناکھاناکھلائے کہ وہ سیر ہوجائیں یاہرایک مسکین کوایک مد تقریبا جودس چھٹانک گندم یاجووغیرہ کھانے کی چیزیں دیں اور اگریہ چیزیں اس کے لے ممکن نہ ہوں تو اس کواختیارہے چاہے اٹھارہ دن روزے رکھے یاجتنے مد دے سکتاہے فقیرکو دے اوراگر کھانا نہیں دے سکتا اورنہ اٹھارہ دن روزہ رکھ سکتاہے توان دونوں میں سے جتنا ممکن ہووہ کرے اوراگروہ بھی ممکن نہ ہوتواسے استغفار کرناچاہئے اگرچہ صرف ایک مرتبہ استغفراللہ کہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ جب بھی کفارہ دینا اس کے لئے ممکن ہوتوکفارہ اداکرے۔ مسئلہ۱۷۲۵۔ جس شخص کودومہینہ متصل کفارہ رمضان کے روزے رکھنے ہوں اسے چاہئے کہ اکتیس روزے بالکل ایک دوسرے کے بعد پے درپے رکھے اوراگر باقی روزے پے درپے نہ رکھے توکوئی حرج نہیں ہے۔ مسئلہ ۱۷۲۶۔ جس کودومہینہ روزے کفارہ کے لئے رکھنے ہو تواسے چاہئے کہ ایسے وقت میںشروع کرے کہ اکتیس دن کے درمیان عیدقربان وغیرہ جن میں روزہ رکھنا حرام ہے نہ آئے۔ مسئلہ۱۷۲۷۔ جب کوئی شخص پے درپے متصل روزے رکھ رہاہو اگربغیر کسی عذر کے ایک دن روزہ نہ رکھے یااس وقت شروع کرے کہ درمیان میں ایک ایسا دن آجائے کہ جس کاروزہ رکھنا اس پر واجب ہے، مثلا جیسے کسی دن کی نذر کرچکاہوکہ وہ اس دن روزہ رکھے گا توپھرایسے شخص کو دوبارہ ابتداء سے روزہ رکھنا پڑیں گے۔ مسئلہ۱۷۲۸۔ وہ روزے جوپے درپے رکھنے ہیں اگران کے درمیان کوئی عذر پیش آئے، مثلا یہ کہ حیض یانفاس کاخون آجائے یاایساسفرکرناپڑ جائے کہ جس کے جانے پرمجبورہو توجب اس کاعذر دورہوجائے تودوبارہ ابتداء سے روزے رکھنا واجب نہیں ہے، بلکہ باقی روزے عذر کے دورہو جا نے کے بعد رکھنا شروع کردے۔ مسئلہ۱۷۲۹۔ اگرروزہ کوحرام چیزسے توڑے خواہ وہ چیزاصلا حرام ہو، مثلا شراب یازنا یاکسی وجہ سے حرام ہوگئی ہومثلا اپنی بیوی سے حالت حیض میں مجامعت کرے توتینوں کفارے اس پرواجب ہیں، یعنی ایک غلام آزاد کرے، دومہینے روزہ رکھے، ساٹھ مسکینوں کوکھاناکھلائے یاہرایک مسکین کوایک مد کھانا گندم یاجو روٹی وغیرہ دے، اوراگر تینوں کفارے دینے ممکن نہ ہوں توپھر ان میں سے جو ممکن ہے اسے انجام دے۔ مسئلہ۱۷۳۰۔ اگرروزہ دار خدایارسول کی طرف جھوٹ نسبت دے توصرف ایک کفارہ ہے تینوں کفارے واجب نہیں ہیں۔ مسئلہ۱۷۳۱۔ اگرروزہ داررمضان کے ایک دن میں کئی جماع کرے تواس پر ہرجماع کے لئے ایک کفارہ واجب ہوگا اوراگر جماع حرام ہوتواس پر ہرمرتبہ تینوں کفارے واجب ہوں گے۔ مسئلہ۱۷۳۲۔ اگرروزہ داررمضان کے دن میں جماع کے علاوہ کئی مرتبہ ایسے کام بجالائے جن سے روزہ باطل ہوجاتاہے توان کاموں کے لئے ایک ہی کفارہ ہے اوراحتیاط مستحب کی بناپر متعدد کفارے دے۔ مسئلہ۱۷۳۳۔ اگرروزہ دار بطورحرام جماع کرے اوراس کے بعد اپنی بیوی سے ہمبستری کرے، توتینوں کفارے دینا بھی واجب ہوں گے اورایک غلام آزاد کرنایادومہینہ روزہ رکھنا یاساٹھ فقیرکے پیٹ بھرکھانا بھی واجب ہے۔ مسئلہ۱۷۳۴۔ اگرروزہ داراپنے روزے کوحلال چیزسے باطل کرے، مثلا پانی پی لیااوراس کے بعدایساکام بھی کرے جوکہ حرام ہے اورروزہ کوبھی باطل کرتاہے، مثلا حرام کھاناکھائے توایک کفارہ کافی ہے۔ مسئلہ۱۷۳۵۔ ڈکارلینے سے اگر روزہ دار کے منہ میں کوئی چیز آجائے تواگر اسے عمدا نگل لے اس کاروزہ باطل ہے اوراس کی قضابجالانا چاہئے اورکفارہ بھی اس پرواجب ہوگا اوراگراس چیزکاکھانا حرام ہے، مثلا ڈکارکے ساتھ خون یاکوئی ایسی چیز آجاے جوغذا کی شکل وصورت سے خارج ہوگئی ہواوراس کوجان بوجھ کردوبارہ نگل لے توپھر اس روزے کی قضاکرنی پڑے گی اوراس پر تینوں کفارے بھی واجب ہوں گے۔ مسئلہ۱۷۳۶۔ اگرکسی معین دن کے لئے روزے کی نذر کی ہو اورپھر اس دن عمدا روزہ باطل کردے تووہ ایک غلام آزاد کرلے یا دومہینہ مسلسل روزے رکھے یاساٹھ مسکینوں کوکھانا کھلائے۔ مسئلہ۱۷۳۷۔ اگرکوئی کسی کے کہنے پر کہ مغرب ہوچکی ہے افطارکرے حالانکہ خود وقت کی تشخیص کرسکتاہے، اوربعد میں ہوکہ ابھی معلوم ہوکہ ابھی مغرب نہیں ہوئی تھی توبنابراحتیاط اس پرقضا اورکفارہ واجب ہے۔ مسئلہ۱۷۳۸۔ جس نے عمدا اپناروزہ باطل کردیاہواگر ظہرکے بعدسفر کرے یاظہر سے پہلے کفارہ سے بچنے کے لئے سفر کرے، بلکہ اگراسے اتفاقا ظہرسے پہلے مسافرت کرنی پڑجائے توبھی بنابراحتیاط اس پرکفارہ واجب ہے۔ مسئلہ۱۷۳۹۔ اگرعمدا روزہ باطل کرے لیکن اس کے بعد میں کوئی عذر، مثلا حیض یانفاس یابیماری وغیرہ پیش آئے تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔ مسئلہ۱۷۴۰۔ اگرکسی کویقین ہوکہ ماہ رمضان کی پہلی ہے اورعمدا اس دن کے روزہ کوباطل کردے اوربعدمیں معلوم ہوجائے کہ شعبان کی آخری تاریخ تھی تواس پرکفارہ واجب نہیں ہے،اسی طرح اگرانسان کوشک ہوکہ رمضان کاآخری دن ہے یاشوال کی پہلی تاریخ اورپھرعمدا اپناروزہ باطل کرے اوربعدمیں معلوم ہوجائے کہ شوال کی پہلی تھی۔ مسئلہ۱۷۴۱۔ اگرروزہ دارماہ رمضان میں اپنی روزہ داربیوی سے جماع کرے چنانچہ اگراس نے بیوی کواس کام پر مجبورکیاہے تواس پراپنااوربیوی دونوں کاکفارہ واجب ہے اوراگر بیوی خود مجامعت پرراضی ہوتوپھرہرایک پرایک کفارہ واجب ہوگا۔ مسئلہ۱۷۴۲۔ اگرروزہ دارماہ رمضان میں اپنی بیوی کے ساتھ جوسورہی ہو جماع کرے تومردپر ایک کفارہ واجب ہوگا اورعورت کاروزہ صحیح ہے اوراس پر کفارہ بھی واجب نہیں ہے۔ مسئلہ۱۷۴۳۔ اگرمرداپنی بیوی کو جماع کے علاوہ کسی اورکام پرمجبور کرے کہ جس سے روزہ باطل ہوتاہے تومردپرعورت کاکفارہ واجب نہیں بلکہ عورت پربھی کفارہ واجب نہیں۔ مسئلہ۱۷۴۴۔ جوشخص مسافرت یابیماری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتا اپنی روزہ داربیوی کوجماع پر مجبورنہیں کرسکتا اوراگربیوی کوجماع پرمجبورکرے تواس کاکفارہ اس کے اوپر واجب نہیں ہوگا۔ مسئلہ۱۷۴۵۔ انسان کوکفارہ اداکرنے میں کوتاہی نہیں کرناچاہئے لیکن فورا اداکرنا بھی واجب نہیں ہے۔ مسئلہ۱۷۴۶۔ اگرانسان پرکفارہ واجب ہوجائے اورکئی سالوں تک ادان کرے تواس کفارہ پرکوئی چیزاضافہ نہ ہوگی۔ مسئلہ۱۷۴۷۔ جس کوکفارہ میں ساٹھ مسکینوں کوکھاناکھلاناہواگر اس کوساٹھ مسکین مل سکتے ہوں توپھرایک فقیر کوایک مدسے زیادہ نہیں دے سکتا یاایک فقیرکو ایک دفعہ سے زیادہ کھانانہیں کھلاسکتا، ہاں اگرانسان کواطمینان ہوکہ فقیر کھانا اپنے اہل وعیال کودے گا یان کوکھلائے گا توپھر ہرایک فقیرکے اہل وعیال کے لئے اگر چہ بچے بھی کیوں نہ ہوایک مد علیحدہ دے سکتاہے۔ مسئلہ۱۷۴۸۔ جوشخص ماہ رمضان کی قضاکاروزہ رکھے ہوئے ہواگر وہ ظہر کے بعدجان بوجھ کراپناروزہ باطل کردے تواس پر دس مسکینوں میں سے ہرایک کوایک مدکے حساب سے طعام دینا واجب ہے اوراگرانہیں دے سکتا تواس کے عوض میں تین روزے رکھے اوراحتیاط مستحب ہے کہ ساٹھ مسکینوں کوطعام دے۔ جہاں صرف قضا لازم ہےمسئلہ۱۷۴۹۔ چندصورتوں میں صرف روزہ کی قضاواجب ہے کفارہ واجب نہیں ہے وہ درج ذیل ہیں : ۱۔ جب رمضان کی رات میں مجنب ہواورجس کی تفصیل مسئلہ(۱۶۴۰) میں گزرچکی ہے اذان صبح تک دوسری نیندسے بیدارنہ ہو۔ ۲۔ مبطلات روزہ کوانجام نہ دے مگرروزہ کی نیت نہ کرے یاریاء کی نیت کی ہویانیت کرے کہ وہ روزہ سے نہیں ہے۔ ۳۔ رمضان میں غسل جنابت کرنابھول جائے اورایک دن یاکئی دن روزے رکھے۔ ۴۔ رمضان میں یہ تحقیق کئے بغیر کہ صبح ہوگئی ہے کہ نہیں ایساکام کرے جس سے روزہ باطل ہوجاتاہے بعدمیں پتہ چلے کہ صبح ہوچکی تھی، اسی طرح اگرتحقیق کے بعدشک یاگمان ہوصبح ہوگئی ہے اورپھرکوئی ایساکام بجالائے کہ جوروزہ کوباطل کردیتاہے اوربعدمیں معلوم ہوجائے کہ صبح ہوچکی تھی تواس دن کی قضااس پرواجب ہے، لیکن اگرتحقیق کے بعدگمان یایقین ہوجائے کہ صبح نہیں ہوئی اورکوئی چیزکھالے لیکن بعدمیں معلوم ہوجائے کہ صبح ہوچکی تھی توقضاواجب نہیں ہے، اوراگرتحقیق کے بعدشک ہوجائے کہ صبح ہوچکی ہے یانہیں اورایساکام کرے جس سے روزہ باطل ہوجاتاہے پھرمعلوم ہوکہ صبح ہوچکی تھی توبنابراحتیاط واجب اس دن کی قضابجالائے۔ ۵۔ اگرکوئی کہے کہ صبح نہیں ہوئی ہے ابھی وقت باقی ہے اورانسان اس کے کہے سے ایساکام کرے جوروزہ باطل کردیتاہے اوربعدمیں پتہ چلے کہ صبح ہوچکی تھی تواس صورت میں بھی قضالازم ہے۔ ۶۔ کوئی کہے کہ صبح ہوچکی ہے لیکن انسان کویقین نہ آئے یاخیال کرے کہ مذاق کررہاہے اورایساکام کرے جس سے روزہ باطل ہوجاتاہے پھرپتہ چلے کہ صبح ہوچکی تھی توقضالازم ہے۔ ۷۔ اگرنابینایاکوئی اورمعذورانسان کسی کے کہنے پرافطارکرے اوربعدمیں معلوم ہوکہ اس وقت مغرب نہیں ہوئی تھی، بلکہ اگر جھوٹے انسان کے کہنے پرافطارکرے تواس پرکفارہ بھی واجب ہوگا۔ ۸۔ اگرمطلع صاف ہواورتاریکی کی وجہ سے یقین ہوجائے کہ مغرب ہوچکی ہے اورافطارکرلے بعدمیں پتہ چلے کہ مغرب نہیں ہوئی تھی، لیکن اگرمطلع بادل کی وجہ سے صاف نہ ہواورگمان ہوجائے کہ مغرب ہوچکی ہے اورافطارکرے بعدمیں پتہ چلے کہ مغرب نہیں ہوئی تھی توا س پر قضاواجب نہیں۔ ۹۔ ٹھنڈک پہنچانے کے لئے یابغیرکسی مقصدکے منہ میں پانی لے کرچاروں طرف پھرائے اورغیراختیاری طورسے پانی حلق سے نیچے چلاجائے توقضارکھے، ہاں اگرروزہ دار ہونے کوبھول جائے اورپانی پی لے یاوضوکے لئے منہ میں پانی ڈالے اوربغیراختیارکے پانی اندرچلاجائے توپھراس پرقضا واجب نہیں ہے۔ ۱۰۔ اگرکوئی شخص اخراج منی کے قصدکے بغیراپنی بیوی سے شوخی کررہاہے اورمنی نکل آئے اوراس طرح منی نکالنابھی اس کی عادت میں نہ ہوتوقضا مستحب ہے۔ مسئلہ۱۷۵۰۔ اگرپانی کے علاوہ کوئی چیزمنہ میں رکھے اوربغیراختیارکے اندرچلی جائے یاناک میں پانی ڈالے اوربغیراختیارکے اندرچلاجائے توپھراس کی قضاواجب نہیں ۔ مسئلہ۱۷۵۱۔ روزہ دارکے لئے زیادہ کلی کرنامکروہ ہے اگرکلی کے بعدلعاب دہن کونگلناچاہے توبہتریہ ہے کہ پہلے تین مرتبہ آب دہن کوباہرتھوک دے۔ مسئلہ۱۷۵۲۔ اگریہ معلوم ہوکہ کلی کرنے کی وجہ سے بے اختیارپانی منہ میں چلاجائے گا توکلی نہیں کرنی چاہئے۔ مسئلہ۱۷۵۳۔ اگرماہ رمضان میں تحقیق کے بعدیقین کرے یاگمان کرے کہ صبح نہیں ہوئی اورپھرروزہ کوباطل کرنے والاکوئی کام بجالائے اوربعدمیں معلوم ہوکہ صبح ہوچکی تھی توقضاواجب نہیں ہے۔ مسئلہ۱۷۵۴۔ اگرانسان کوشک ہوکہ مغرب ہوئی ہے یانہیں تووہ شخص افطارنہیں کرسکتا، لیکن اگرشک ہوکہ صبح ہوئی ہے یانہیں توایسے کام کرسکتاہے جس سے روزہ باطل ہوجاتاہے اورتحقیق کرنابھی واجب نہیں ہے۔ قضاروزہ کے احکام مسئلہ۱۷۵۵۔ اگردیوانہ عاقل ہوجائے تواس پرروزوں کی قضاواجب نہیں کہ جن میں وہ دیوانہ رہاتھا۔ مسئلہ۱۷۵۶۔ اگرکافرمسلمان ہوجائے تواس پران دنوں کی قضاواجب نہیں کہ جن میں وہ کافرتھا، اسی طرح اس دن کاروزہ واجب نہیں جس میں مسلمان ہوا، ہاں اگرظہر سے پہلے مسلمان ہوجائے اورروزہ کوباطل کرنے والاکوئی کام بجانہ لایاہوتو بنابراحتیاط واجب نیت کرے اورروزہ رکھے اوراگر نہیں رکھا اس کی قضابجالائے، لیکن اگر مرتد مسلمان ہوجائے توجتنے دن مرتدرہااس زمانے کے روزوں کی قضاکرے۔ مسئلہ۱۷۵۷۔ مستی کی حالت میں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضالازم ہے چاہے مست کرنے والی چیزکواشتباہا یاعلاج کے لئے کھایاہو۔ مسئلہ۱۷۵۸۔ اگرکسی عذرکی وجہ سے چنددن روزہ نہ رکھاہو اوربعدمیں شک ہوکہ اس کاعذر کب برطرف ہواتھاتواس صورت میں وہ کم مقدارکہ جس کاوہ احتمال دیتاہے کہ روزہ نہیں رکھاقضاکرسکتاہے، مثلا وہ شخص کہ جورمضان سے پہلے سفرکوگیاتھالیکن اسے معلوم نہ رہے کہ پانچویں رمضان کوواپس آیاتھا یاچھٹی کوتووہ صرف پانچ دن روزہ رکھے، اسی طرح اگر کسی کویہ علم نہ ہوکہ عذرکس دن پیداہواتھاتووہ کم مقدارکی قضا کرے، مثلا رمضان کی آخری دنوں میںسفرکرے اوررمضان کے بعدلوٹے لیکن اسے معلوم نہ ہوکہ اس نے پچیسویں رمضان کوسفر کیاتھایاچھبیسویں کوتووہ کم مقدارکویعنی پانچ دن کوقضاکرسکتاہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ زیادہ مقدار، یعنی چھ دنوں کی قضاکرے جب کہ سفر کاوقت معلوم ہولیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ زیادہ مقدار، یعنی چھ دنوں کی قضاکرے جب کہ سفر کاوقت معلوم ہولیکن مقدار معلوم نہ ہو۔ مسئلہ۱۷۵۹۔ اگرکسی کے ذمہ کئی ماہ رمضان کے روزے ہوں توجس کی قضا چاہے پہلے بجالائے، ہاں اگر آخری رمضان کی قضاکا وقت تنگ ہو، مثلا آخری رمضان کے پانچ دن کی قضااس کے ذمہ ہواورآئندہ رمضان تک صرف پانچ دن رہ گئے ہوں توپھر بنابراحتیاط واجب آخری رمضان کی قضاکرے۔ مسئلہ۱۷۶۰۔ اگرکئی رمضان کے روزے ہوں تواگروہ روزہ میں نیت معین نہ کرے کہ کس رمضان کی قضاکررہاہے توپھر وہ روزے پہلے سال کی قضا محسوب ہوں گے۔ مسئلہ۱۷۶۱۔ اگرکسی کوقضاروزہ رکھناہوتواگراس روزے کی قضاکاوقت تنگ نہ ہوتووہ ظہرسے پہلے روزہ کوبھی توڑ سکتاہے۔ مسئلہ۱۷۶۲۔ اگرکسی دوسرے شخص کے روزہ کی قضاکررہاہو تواحتیاط واجب یہ ہے کہ ظہرکے بعد اس روزے کوباطل نہ کرے۔ مسئلہ۱۷۶۳۔ اگرکوئی بیماری یاحیض، نفاس کی وجہ سے رمضان کاروزہ نہ رکھے اوررمضان ختم ہونے سے پہلے مرجائے تونہ رکھے ہوئے روزوں کی قضا واجب نہیں ہے۔ مسئلہ۱۷۶۴۔ اگرکوئی بیماری کی وجہ سے رمضان کاروزہ نہ رکھ سکے اوربیماری آئندہ سال تک باقی رہے تونہ رکھے ہوئے روزوں کی قضاواجب نہیں ہے صرف ہرروز کے عوض ایک مد (تقریبا۷۵۰ گرام) گہیوں یاجواوراس کے مانند کوئی چیزفقیرکودے، لیکن اگربیماری کے علاوہ کے کسی اورعذر کی بناپر (مثلاسفر کی وجہ سے) روزہ نہ رکھ سکے اوریہ عذر اگلے رمضان تک باقی رہے تونہ رکھے ہوئے روزوں کی ماہ رمضان کے بعدقضاکرناچاہئے اوراحتیاط واجب کی بنا پرہردن کے لیے ایک مدکھانا فقیروں کودے۔ مسئلہ۱۷۶۵۔ اگرکسی بیماری کی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکھے اوررمضان کے بعد بیماری ختم ہوجائے لیکن کوئی دوسرے عذر پیش آجائے جس کی وجہ سے اگلے رمضان تک قضاروزے نہ رکھ سکاہوتوپھران روزوں کی قضابجالاناچاہئے، اسی طرح اگر رمضان میں مرض کے علاوہ کوئی اورعذر پیداہوجائے اور رمضان کے بعدختم ہوجائے اوراگلے رمضان تک مرض کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے توجوروزے چھوٹے ہیں ان کی قضاکرنا ضروری ہے اوربنابراحتیاط واجب ہرروزے کے لئے ایک مد طعام فقیرکودے۔ مسئلہ۱۷۶۶۔ اگرانسان کسی عذر کی وجہ سے رمضان کاروزہ نہ رکھ سکے اورعذر برطرف ہوجانے کے باوجود آئندہ رمضان تک جان بوجھ کر قضانہ کرے تورمضان کے بعدروزوں کی قضارکھے اورہردن کے عوض ایک مد طعام کفارد دے۔ مسئلہ۱۷۶۷۔ اگرروزے کی قضامیں کوتاہی کرے یہاں تک کہ وقت تنگ ہوجائے اورتنگی وقت میں عذر پیداہوجائے توقضابھی کرے اورکفارہ بھی دے، اسی طرح اگرکوتاہی نہیں کی تھی لیکن اتفاق سے وقت کی تنگی میں کوئی عذر پیداہوجائے توقضاکرے اوراحتیاط واجب کی بناپر ہردن کے عوض ایک مدغذا کفارہ میں دے۔ مسئلہ۱۷۶۸۔ اگرانسان کئی سال بیماررہنے کے بعد اچھاہو اوراگلے رمضان تک قضا کاوقت باقی ہوتوصرف اخری رمضان کے روزوں کی قضاکرے اورگزشتہ سالوں کے لئے ہردن کے لئے ایک مد کھانافقیرکودے۔ مسئلہ۱۷۶۹۔ جس کوروزوں کے لئے مدطعام فقیروں کودیناہے تو چنددنوں کاکفارہ ایک ہی فقیرکودے سکتاہے۔ مسئلہ۱۷۷۰۔ اگررمضان کی قضاکوکئی سال تک بجالانے میں تاخیر کرے تواسے ان روزوں کی قضابجالانی ہوگی اورہرایک دن کے عوض ایک مد غذا کفارہ میں دے۔ مسئلہ۱۷۷۱۔ اگررمضان کے روزے عمدا نہ رکھے توان کی قضاکرنا پڑے گی اورہر ایک روزے کے عوض دومہینے روزے رکھے یاساٹھ مسکینوں کوکھانا کھلائے یاایک غلام آزاد کرے، پس اگروہ اگلے رمضان تک قضانہ کرے توہرایک روزے کے لئے ایک مدطعام دینابھی ضروری ہوگا۔ مسئلہ۱۷۷۲۔ اگرکوئی عمدا روزہ نہ رکھے اورپھروہ دن کئی مرتبہ وہ کام بھی کرے جوکہ روزہ کوباطل کردیتاہے، مثلا کئی مرتبہ مجامعت کرے توہر مرتبہ کے لئے ایک کفارہ دیناہوگا۔ مسئلہ۱۷۷۳۔ باپ کے مرنے کے بعد بڑے بیٹے کوچاہئے کہ اس کے روزوں کی قضابجالائے جیسے کہ قضانماز کے مسائل میں بیان کیاگیا اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ ماں کے روزے بھی قضاکرے۔ مسئلہ۱۷۷۴۔ اگرباپ پررمضان کے علاوہ کوئی ا ورواجب روزہ، مثلا نذرکا روزہ ہوتوان کی قضا بھی بنابراحتیاط واجب بڑا لڑکا بجالائے۔ مسافر کے روزے کے احکاممسئلہ۱۷۷۵۔ جس مسافرکو چاررکعتی نمازوں کوسف میں قصرپڑھنا ہے وہ ان دنوں کاروزہ بھی نہیں رکھ سکتا، اورجومسافر نماز پوری پڑھتا ہو، مثلا اس کاسفر، سفر معصیت ہویااس کاشغل ہی سفر ہوتواس کو سفرمیں روزہ رکھناہوگا۔ مسئلہ۱۷۷۶۔ ماہ رمضان میں سفرکرنا حرام نہیں ہے لیکن اگر روزہ سے بچنے کے لئے سفرکرے تومکروہ ہے۔ مسئلہ۱۷۷۷۔ ماہ رمضان کے علاوہ اگر انسان پرکسی معین دن کا روزہ واجب ہو، مثلا نذر کرلیاہوکہ پندرہ شعبان کوروزہ رکھوں گاتواس دن سفرکرسکتاہے، اوراسی طرح اگررمضان کے روزوں کی قضااس کے ذمہ ہواوروقت تنگ ہوچکا ہوتوبھی سفر کرسکتاہے۔ مسئلہ۱۷۷۸۔ اگرکسی نے نذر کی ہوکہ روزہ رکھے لیکن اس کادن معین نہ کرے، توپھر وہ ایسے روزوں کوسفرکی حالت میں نہیں رکھ سکتا، لیکن اگروہ نذر کرے کہ فلاں دن کے روزہ کوسفر کی حالت میں بجالاؤں گا توپھراس کوچاہئے کہ اس دن سفرمیں روزہ رکھے اوراگر نذرکی ہوکہ فلاں مخصوص دن سفرمیں ہویانہیں روزہ رکھوں گاتواگر چہ سفر میں بھی ہوتب بھی وہ اس دن روزہ رکھے۔ مسئلہ۱۷۷۹۔ مسافراپنی طلب حاجت کے لئے تین دن مدینہ منورہ میں بھی مستحبی روزہ رکھ سکتاہے۔ مسئلہ۱۷۸۰۔ جس شخص کوعلم نہ ہوکہ مسافر کاروزہ باطل ہے اورسفرمیں روزہ رکھے لیکن دن میں کسی وقت اس کومعلوم ہوجائے کہ اس کاروزہ باطل ہے تواس کاروزہ باطل ہوگا اوراگرمغرب تک معلوم نہ ہوتوروزہ صحیح ہوگا۔ مسئلہ۱۷۸۱۔ جوشخص بھول جائے کہ وہ مسافرہے یابھول جائے کہ مسافر کاروزہ باطل ہے اورروزہ رکھ لے تواس کاروزہ باطل ہے۔ مسئلہ۱۷۸۲۔ ظہرکے بعد سفرکرنے والے مسافرکو اپنا روزہ پوراکرناچاہئے اوراگر ظہرسے پہلے سفرکرے تووہ جب حد ترخص تک پہنچ جائے، یعنی جب شہرکی دیواریں دکھائی نہ دیں اوراذان کی آواز سنائی نہ دے تواس کواپناروزہ توڑنا پڑے گا اوراگراس سے پہلے روزہ توڑ دے توبنابر احتیاط واجب کفارہ بھی اس پرواجب ہے۔ مسئلہ۱۷۸۳۔ اگرمسافرظہرسے پہلے اپنے وطن یاایسی جگہ پرپہنچ جائے کہ جہاں دس دن رہنے کاقصدرکھتاہے تواگراس وقت تک کوئی ایساکام نہ کیاہو جس سے روزہ باطل ہوتا ہے تواس کوچاہئے کہ اس دن کاروزہ رکھے اوراگرایساکام کرچکاہے توپھراس دن کاروزہ اس پرواجب نہیں ہے۔ مسئلہ۱۷۸۴۔ مسافراوروہ شخص جوروزہ رکھنے سے معذور ہواس کے لئے ماہ رمضان کے دنوں میں جماع کرنااورسیرہوکرکھانا پینا مکروہ ہے۔ جن لوگوں پرروزہ واجب نہیں ہے۔ مسئلہ ۱۷۸۵۔ جوشخص بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا یاروزہ اس کے لئے باعث مشقت ہے تواس پر روزہ واجب نہیں ہے لیکن دوسری صورت میں ہردن کے لیے ایک مدطعام فقیرکودے۔ مسئلہ۱۷۸۶۔ جوشخص بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا اگررمضان کے بعد روزہ رکھ سکے تو احتیاط مستحب کی بناپر روزوں کی قضابجالائے۔ مسئلہ۱۷۸۷۔ اگرانسان میں ایسی بیماری ہو کہ زیادہ پیاس لگتی ہے اوروہ پیاس کوبرداشت نہ کرسکتاہویاباعث مشقت ہوتواس پرروزہ واجب نہیں ہے لیکن دوسری صورت میں، یعنی جب پیاس اس کے لئے باعث مشقت ہوتواس کوہر روزہ کے لئے ایک مد طعام فقیرکودے اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ پانی نہ پیئے اوراگربعد میں روزے رکھنے پرقادرہوجائے توان روزوں کی قضابجالائے۔ مسئلہ۱۷۸۸۔ حاملہ عورت جس کاوضع حمل قریب ہو اورروزہ بچہ کے لئے مضر ہوتواس پر روزہ رکھناواجب نہیں، اسی طرح اگرروزہ رکھنا خودعورت کے لئے مضرہوتوبھی اس پرروزہ واجب نہیں، لیکن ہرروز کے لئے ایک مدطعام فقیرکودے، ہاں ان دونوں صورتوں میں روزوں کی قضابجالانی ہوگی۔ مسئلہ۱۷۸۹۔ دودھ پلانی والی عورت چاہے بچہ کی ماں ہویادایہ ہویابغیر اجرت کے دودھ پلانے والی ہو اگرروزہ رکھنے سے دودھ میں کمی آتی ہواور بچہ کے لئے مضرہوتو اس پرروزہ واجب نہیں ہے، اسی طرح اگرروزہ خودعورت کے لئے مضرہو توبھی اس پرروزہ واجب نہیں ہے اوراس صورت میں ہردن کے لئے ایک مدطعام فقیرکودے گی، اوردونوں صورتوں میں ان روزوں کی قضابعدمیں بجالانی ہوگی، البتہ اگرکوئی ایسی عورت مل سکتی ہوکہ بچے کوبغیراجرت کے دودھ پلاتی رہے یادودھ پلانے کی اجرت ماں یاباپ یاکسی اجنبی شخص سے اس کومل سکے توبچہ دوسری عورت کو دے اورخود روزہ رکھے۔ چاندثابت ہونے کاطریقہمسئلہ۱۷۹۰۔ پہلی کاچاندپانچ طریقوں سے ثابت ہوتاہے : ۱۔ انسان خود چانددیکھے۔ ۲۔ اتنے لوگوں کی گواہی جس سے یقین ہوجائے ، اسی طرح ہروہ چیز جس سے یقین حاصل ہوجائے۔ ۳۔ شعبان کے تیس دن گزرجانے سے رمضان کی پہلی تاریخ ثابت ہوجاتی ہے یاپہلی رمضان سے تیس دن گزجانے سے شوال کی پہلی تاریخ ثابت ہوجاتی ہے۔ ۴۔ دوعادل مردوں کی گواہی، لیکن اگردونوں چاند کے اوصاف ایک دوسرے سے مختلف بتائیں یاان کی شہادت خلاف واقع ہو، مثلایہ کہیں کہ چاند کااندرونی دائرہ افق کی طرف تھاتوپھرچاند ثاتب نہیں ہوگا، ہاں بعض خصوصیات کی تشخیص میں ان دونوں میں اختلاف ہوجائے، مثلاایک کہے کہ چاند اونچا تھا اوردوسراکہے اونچانہیں تھا توبھی ان کے کہنے سے چاندکی پہلی ثاتب ہوجائے گی۔ ۵۔ حاکم شرع حکم دے کہ آج پہلی ہوگئی ہے۔ مسئلہ ۱۷۹۱۔ جب حاکم شرع حکم دے کہ آج چاند کی پہلی تاریخ ہے توجوشخص اس کی تقلیدمیں نہیں ہے اس کوبھی حاکم کاحکم ماننا ہوگا، البتہ جس کویقین ہوکہ حاکم شرع نت اشتباہ کیاتووہ اس پرعمل نہیں کرسکتا۔ مسئلہ۱۷۹۲۔ علم نجوم کے ماہرین کی پیشین گوئی سے چاندکی پہلی ثابت نہیں ہوگی لیکن اگر کسی کوان کے کہنے سے یقین ہوجائے تواس پرعمل کرنا چاہئے۔ مسئلہ۱۷۹۳۔ چاند کااونچاہونایاغروب ہونا اس کی دلیل نہیں ہے کہ سابقہ رات کوچاند کی پہلی تاریخ تھی۔ مسئلہ۱۷۹۴۔ جب کوئی شخص ماہ رمضان کی پہلی ثابت نہ ہونے کی وجہ سے روزہ نہ رکھے اگردوعادل کہہ دیں کہ گزشتہ رات ہم نے چانددیکھاہے تواس کو چاہئے کہ اس روزہ کی قضاکرے۔ مسئلہ۱۷۹۵۔ جب ایک شہرمیں چاندکی پہلی ثابت ہوجائے تودوسرے شہروالوں کے لئے اس کاکوئی فائدہ نہیں ہے مگر جب وہ دونوںشہر ایک دوسرے سے قریب ہویاانسان کومعلوم ہوکہ ان دنوں کاافق ایک ہے۔ مسئلہ۱۷۹۶۔ تاراورٹیلی گراف سے پہلی ثابت نہیں ہوتی مگرجب دونوں شہرایک دوسرے کے نزدیک یاافق میں برابرہوں اورانسان کوعلم ہوکہ ٹیلی گراف مجتہد کے حکم کی بناپر یادوعادل مردوں کی شہادت پردیاگیاہے۔ مسئلہ۱۷۹۷۔ جس دن کے بارے میں شک ہوکہ آج آخری رمضان ہے یاپہلی شوال ہے توروزہ رکھناچاہئے لیکن اگرمغرب سے پہلے ثابت ہوجائے کہ آج پہلی شوال ہے توروزہ افطارکرناہوگا۔ مسئلہ۱۷۹۸۔ قیدی کواگرماہ رمضان کایقین نہ ہوسکے تواپنے گمان پرعمل کرے اورگمان بھی ممکن نہ ہوتو جس مہینہ میں چاہے روزہ رکھے لیکن گیارہ مہینے گزرجانے کے بعد دوبارہ ایک ماہ روزہ رکھے اوراگربعدمیں اس کے خلاف ثابت ہوجائے وہ روزے صحیح ہیں اوراگرثابت ہوجائے کہ رمضان نہیں ہوا تو دوبارہ روزہ رکھنا چاہئے۔ حرام اورمکروہ روزے مسئلہ۱۷۹۹۔ عیدالفطر اورعیدقربان میں روزہ رکھناحرام ہے، اسی طرح اس دن میں جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہوکہ آخری شعبان ہے یا پہلی رمضان ہے، رمضان المبارک کی نیت سے روزہ رکھے توحرام ہے۔ مسئلہ۱۸۰۰۔ عورت کے مستحبی روزے رکھنے سے اگرشوہر کاحق برباد ہوتاہوتوشوہرکی اجازت کے بغیرروزہ نہیں رکھ سکتی، اسی طرح اگر شوہرمستحب روزہ رکھنے سے منع کرے تو احتیاط واجب کی بناپر روزہ نہیں رکھناچاہئے۔ مسئلہ۱۸۰۱۔ اولادکے مستحبی روزے اگروالدین یادادا کے لئے اذیت کے باعث ہوں توان کے لئے روزہ رکھنا جائزنہیں ہے، بلکہ اگران کے لئے سبب اذیت نہ بھی ہومگر وہ مستحبی روزہ سے منع کریں توروزہ نہ رکھیں۔ مسئلہ۱۸۰۲۔ اگرلڑکاباپ کی اجازت کے بغیر مستحبی روزے رکھے اوراس کاباپ دن میں روزہ رکھنے سے منع کرے توافطارکرناضروری ہے۔ مسئلہ۱۸۰۳۔ جس کومعلوم ہویاگمان ہوکہ روزہ اس کے لئے نقصان دہ ہے تووہ روزہ نہ رکھے اگرچہ ڈاکٹر کہے کہ مضرنہیں ہے اوراسی طرح اگراسے معلوم ہوکہ روزہ رکھنااس کے لئے مضرنہیں ہے اگرچہ ڈاکٹر کہیں مضرہے، توپھربھی روزہ رکھناچاہئے۔ مسئلہ۱۸۰۴۔ جس کاعقیدہ ہوکہ روزہ اس کے لئے مضرنہیں ہے اوروہ روزہ رکھے اورمغرب کے بعد پتہ چلے کہ روزہ اس کے لئے مضرتھا تو اس کی قضا بجالانا چاہئے۔ مسئلہ۱۸۰۵۔ جب کسی کواحتمال ہوکہ روزہ رکھنا اس کے لئے مضرہے اوراس احتمال سے اس کوڈر پیداہو، اگر وہ احتمال لوگوں کی نظرمیں صحیح ہو تواس کوروزہ نہیں رکھناچاہئے اورروزہ رکھے تواس کاروزہ صحیح نہیں ہوگا، مگریہ کہ قصدقربت کی نیت سے روزہ رکھے اوربعدمیں معلوم ہوجائے کہ اس کے لیے مضرنہیں تھا۔ مسئلہ۱۸۰۶۔ بیان کئے گئے روزوں کے علاوہ بھی کچھ حرام روزے ہیں جن کاذکر بڑی کتابوں میں ہے۔ مسئلہ۱۸۰۷۔ روزہ رکھناعاشورکے دن یااس دن کہ جس کے متعلق شک ہوکہ عرفہ کادن ہے یاکہ عید قربان کا مکروہ ہے، لیکن عاشورہ میں مستحب ہے کہ انسان عصرکے وقت تک کھانے، پینے سے پرہیزکرے۔ مستحب روزےمسئلہ ۱۸۰۸۔ پورے سال میں سوائے ان دنوں کے جن میں روزہ رکھناحرام ہے یامکروہ کہ جن کاذکر ہوچکاہے روزہ رکھنا مستحب ہے اوربعض دنوں کے متعلق بہت تاکید کی گئی ہے ان میں سے یہ ہیں : ۱۔ ہرماہ کی پہلی اوراخری جمعرات اورہردسویں تاریخ کے بعدوالاپہلابدہ اوراگر کوئی ان روزوں کوبجانہ لائے تومستحب ہے کہ ان کی قضاکرے اوراگر اصلا روزہ نہ رکھے تومستحب ہے کہ ہردن کے لئے ایک مدطعام یا۶/۱۲ نخود چاندی کسی فقیرکودے۔ ۲۔ ہرماہ کی تیرہویں، چودہویں اورپندرہویں کو۔ ۳۔ پورے ماہ رجب اورماہ شعبان اوران دوماہ میں سے کچھ دن اگر چہ ایک ہی دن کیوں نہ ہو۔ ۴۔ عید نوروزکے دن، ذی قعدہ کی پچیس اورانتیس اورذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے لے کرنویں تک، یعنی یوم عرفہ تک، لیکن اگرروزہ رکھنے کی وجہ سے ضعف پیداہوجائے اورعرفہ کی دعاؤں کونہ پڑھ سکے توپھر اس کے لئے روزہ مکروہ ہے، عیدغدیر(۱۸ذی الحجہ )، محرم کی پہلی اورتیسری، عید میلادالنبی(۱۷ ربیع الاول) رسول خداکے مبعث کادن(۲۷ رجب المرجب) اوراگرکوئی مستحبی روزہ رکھے توآخرتک پوراکرنااس پرواجب نہیں، بلکہ اگرکوئی مومن بھائی اس کوکھانے کی دعوت دیتاہے تومستحب ہے کہ اس کودعوت قبول کرے اوردن میں افطارکرے۔ مسئلہ ۱۸۰۹۔ چھ آدمیوں کے لئے اگرچہ روزہ دارنہ بھی ہومستحب ہے ان کاموں سے بچیں جوروزہ کوباطل کردیتے ہیں : ۱۔ وہ مسافرکہ جس نے سفرکے دوران روزہ کوباطل کرنے والاکام انجام دیاہواورظہرسے پہلے وطن میں یاجہاں دس دن ٹہرنے کاارادہ رکھتاہے پہنچ گیاہے۔ ۲۔ وہ مسافرجوظہرکے بعد اپنے وطن یااس جگہ کہ جہاں دس دن رہناہوپہنچ جائے۔ ۳۔ وہ بیمارکہ جو ظہرسے پہلے ٹھیک ہوجائے لیکن اس نے روزہ کوباطل کرنے والاکوئی کام انجام دیاہو۔ ۴۔ وہ مریض جوظہرکے بعدٹھیک ہوجائے۔ ۵۔ وہ عورت جودن کے کسی حصہ میں خون حیض یانفاس سے پاک ہوجائے۔ ۶۔ وہ کافر کہ جورمضان کے کسی دن میں مسلمان ہوجائے۔ مسئلہ ۱۸۱۰۔ روزہ دارکے لئے مستحب ہے کہ روزہ افطارکرنے سے پہلے مغرب وعشاء کی نمازپڑھ لے، لیکن اگرحضورقلب کے ساتھ نہ پڑھ سکتا ہویاکوئی شخص افطارکے لئے اس کاانتظارکررہاہو، توبہترہے کہ پہلے افطارکرے لیکن بس اتنا کہ جس کے بعدنمازکواس کے فضیلت کے وقت میں پڑھ سکے۔
خمس کے احکاممسئلہ۱۸۱۱۔ خمس سات چیزوں پرواجب ہوتاہے : ۱۔ کاروبار کے منافع ۲۔ معدن (کان) ۔ ۳۔ گنج (خزانہ)۔ ۴۔ حلال مال جوحرام مال میں مخلوط ہوجائے۔ ۵۔ دریامیں غوطہ خوری کے ذریعہ حاصل ہونے والے جواہرات۔ ۶۔ جنگ کامال غنیمت ۔ ۷۔ جوزمین مسلمان کافرذمی سے خریدے۔ ان سب کے احکام آئندہ مسائل میں بیان ہوں گے۔ ۱۔ کاروبار کانفعمسئلہ۱۸۱۲۔ جب انسان تجارت یاصنعت یاکسی اورکاروبار سے کوئی مال حاصل کرتا ہے اگرچہ کسی میت کی نمازیاروزہ اجرت پرپڑھ کر اس سے کچھ مال حاصل کیاہو چنانچہ اس مال سے خو د اپنے اہل وعیال کے سالانہ اخراجات پرصرف کرنے کے بعدجوبچ جائے اس بچت میں سے خمس، یعنی پانچواں حصہ اس طریقے کے مطابق اداکرے جس کی تفصیل بعدمیں بیان ہوگی۔ مسئلہ۱۸۱۳۔ اگرکسب کے بغیرکوئی مال ہاتھ آجائے، مثلا کوئی مال کسی نے اسے بخش دیاہوتواگرایسے مال سے سالانہ اخراجات نکال کر کوئی چیز بچ جائے تواس کاخمس بنابراحتیاط واجب اداکرے۔ مسئلہ۱۸۱۴۔ عورت کوجومہر ملتاہے اس پرخمس واجب نہیں ہے اسی طرح وہ میراث جوکسی کوپہنچتی ہے لیکن اگرایسے شخص کاترکہ ورثہ مل جائے کہ جس سے بہت دوررکارشتہ تھااوراسے رشتہ کی خبربھی نہ تھی توپھراحتیاط واجب یہ ہے کہ اس ارث کے مال سے سال کے اخراجات کرچکنے کے بعد اگرکوئی چیزبچ جائے اس کاخمس اداکرے۔ مسئلہ ۱۸۱۵۔ اگرکوئی مال میراث میں ملے اورمعلوم ہوکہ میت نے اس کاخمس ادانہیں کیاہے تواس مال کاخمس دیناہوگا اسی طرح اگراس مال میں جووارث کوملاہے خمس واجب نہ ہولیکن میراث پانے والاجانتاہوکہ میت کے ذمے خمس واجب الاداء تھا تواس کواس کے مال سے خمس اداکرناچاہئے۔ مسئلہ۱۸۱۶۔ اگرقناعت کی وجہ سے سال کے اخراجات سے کچھ بچ جائے تواس کاخمس دیناچاہئے۔ مسئلہ۱۸۱۷۔ جب کسی کاخرچ کوئی دوسرادیتاہو توخودسے حاصل کردہ پورے مال کاخمس دیناچاہئے اوراگراس مال سے کچھ حصہ زیارات اوراس قسم کی چیزوں پرخرچ کیاہوتوجومال باقی اس کاخمس دیناہوگا۔ مسئلہ۱۸۱۸۔ جب کسی ملک کو معین افراد، مثلا اپنی اولادکے لئے وقف کیاہواوراولاداس ملک میں زراعت کرنے یادرخت لگانے سے کچھ مال حاصل کرے تو جب وہ مال ان کے سالانہ خرچ سے زیادہ ہوتواس کاخمس بھی دیناواجب ہوگا۔ مسئلہ۱۸۱۹۔ مستحق افراد جوخمس وزکات لیتے ہیں چاہے سالانہ اخراجات کے بعد اس سے کچھ بچ جائے پھربھی اس بچت پر خمس نہیں ہے، البتہ اگرخمس وزکات سے حاص کردہ مال سے نفع حاصل ہو، مثلا خمس میں ملے ہوئے درخت میں پھل پیداہوتواس نفع سے سال بھرکا خرچ نکالنے کے بعد بچت ہواس بچت پرخمس واجب ہے، اسی طرح اگر صدقہ مستحبی لے تواس کاخمس احتیاط واجب کی بناپردیناچاہئے۔ مسئلہ۱۸۲۰۔ اگرایسے روپیہ سے کہ جس پرخمس واجب تھا خمس دئیے بغیرکوئی چیزخریدے، یعنی بیچنے والے سے کہے کہ اس مال کواس رقم سے خریدرہاہوں توخمس کی مقدارکے برابرمعاملہ باطل ہے البتہ اگرحاکم شرع اجازت دیدے معاملہ صحیح ہے اوراس خریدی ہوئی چیزکاپانچواں حصہ حاکم شرع کودے اوراگر خریدی ہوئی چیزنہ ہوتواس کی قیمت سے پانچواں حصہ حاکم شرع کودیدے۔ مسئلہ۱۸۲۱۔ اگرکوئی چیزخریدے اورمعاملہ کے بعد اس کی قیمت ایسے روپئے سے اداکرے کہ جس کاخمس ادانہیں کیاتھا توجومعاملہ اس نے کیاہے وہ صحیح ہے لیکن چونکہ قیمت اس رقم سے دی تھی جس کاخمس ادانہیں کیاتھا اس لئے بمقدارخمس رقم کامقروض رہے گا اوراگراتنی رقم بیچنے والے کے پاس موجودہوتوحاکم شرع اس رقم کولے لے گا اوراگروہ رقم باقی نہیں ہے توحاکم شرع خریداریابیچنے والے سے(کسی سے بھی) مطالبہ کرسکتاہے۔ مسئلہ ۱۸۲۲۔ اگرکوئی ایسامال خریدے جس کاخمس نہ دیاہوتوخمس کی مقدارکے برابراگرحاکم شرع اجازت نہ دے، معاملہ باطل ہے، البتہ اگرحاکم شرع اجازت دیدے توصحیح ہے اورایسی صورت میں معاملہ والی رقم کاخمس حاکم شرع کودیناہوگا اوراگربیچنے والے کودیاہے تواس سے لے کر حاکم شرع کودے۔ مسئلہ۱۸۲۳۔ جس چیزکاخمس نہ دیاہواگرکسی کوکوئی بخش دے تواس چیزکے خمس کامالک وہ نہیں ہوگا۔ مسئلہ۱۸۲۴۔ کافریاایسے شخص سے جوخمس کاعقیدہ نہیں رکھتاکوئی مال کسی کے پاس آئے تواس کاخمس واجب نہیں ہے۔ مسئلہ۱۸۲۵۔ تاجراورکاسب اورصنعت گروغیرہ جب کسب شروع کریں اس وقت سے لے کر ایک سال گزرنے تک ان کے سال کے مخارج کے بعد جو چیزبچ جائے تواس کاخمس واجب ہے، لیکن وہ شخص جس کاکام کاسبی کرنانہیں، اگراتفاق سے اسے کسی معاملہ میں کوئی منافع حاصل ہوتوفائدہ حاصل ہونے کے وقت سے جب ایک سال گزرجائے تواس مقدارکاخمس جواس کے سال کی اخراجات سے بچ جائے دیناواجب ہوگا۔ مسئلہ۱۸۲۶۔ انسان کوسال کے درمیان جب نفع حاصل ہوتواس وقت بھی خمس دے سکتاہے اورآخرسال تک مؤجربھی کرسکتاہے اورخمس دینے کے لئے شمس سال معین کرسکتاہے۔ مسئلہ۱۸۲۷۔ جب کوئی تاجر یاکاسب کی طرح خمس نکالنے سال معین کرے اگروہ منفعت حاصل کرنے کے بعد سال ختم ہونے سے پہلے مرجائے توپھراس منفعت سے صرف اس کے مرنے کے وقت تک کے مصارف کم کرلئے جائیں گے اورباقی ماندہ منفعت سے خمس دیناواجب ہوگا۔ مسئلہ۱۸۲۸۔ اگرتجارت کے لئے خریدی ہوئی چیزکی قیمت چڑھ جائے اوروہ تجارتی اورآمدنی کے اعتبارسے اس چیزکونہ بیچے اورپھرسال کے درمیان اسی چیز کی قیمت گرجائے توقیمت کی جومقداربڑھ گئی تھی اس کاخمس دیناواجب نہیں ہے۔ مسئلہ۱۸۲۹۔ اگرتجارت کے لئے خریدی ہوئی چیزکی قیمت چڑھ جائے لیکن وہ اسے امیدپر فروخت نہ کرے کہ اورزیادہ مہنگی ہوجائے اوریوں ہی سال کے ختم ہونے تک فروخت نہ کرے اورپھراس کی قیمت گرجائے پھرتوجومقداربڑھ گئی تھی اس کاخمس دیناواجب ہے۔ مسئلہ۱۸۳۰۔ اگرمال تجارت کے علاوہ کوئی مال اس کے پاس تھاکہ جس کاخمس دے چکاہے یااس پرخمس ہی نہیں ہے تواگراس کی قیمت بڑھ جائے توجتنی قیمت بڑھ گئی ہے اس پرخمس نہیں ہے لیکن اگراس کوبیچ ڈالے توجتنی قیمت بڑھی تھی اس بڑھی قیمت کا خمس دے، لیکن اگر کوئی درخت خریدے اوربڑاہوجائے یابھیڑ بکری موٹی ہوجائے تواگران کے رکھنے سے اس کاارادہ یہ تھاکہ ان سے کوئی منفعت حاصل کرے توزیادتی کاخمس دیناپڑے گا۔ مسئلہ۱۸۳۱۔ اگراس نیت سے باغ لگائے کہ جب اس کی قیمت چڑھ جائے گی تب بیچوں گا تواگراس کے بیچنے کاوقت آگیاہوتواس کاخمس اداکرے، لیکن اگرنیت یہ رہی ہوکہ اس باغ کے پھل کوکھائیں گے توپھلوں کاخمس دے اوراحتیاط کی بناپر پھلوں کے بڑھنے کی قیمت کاخمس بھی اداکرلے۔ مسئلہ۱۸۳۲۔ اگرکوئی شخص بیداورچنار(وہ درخت جن کی پرورش صرف لکڑی کے لئے ہوتی ہے) وغیرہ کے درخت لگائے توجوسال ان کے بیچنے کاہے اگر چہ نہ بیچے ان کاخمس اداکرے، اسی طرح اگر ان درختوں کی شاخوں سے نفع اٹھائے جوعموما ہرسال کی آمدنی سال کے اخراجات سے بڑھ جائے توضروری ہے کہ ہرسال کے خاتمے پراس زیادہ کاخمس دے۔ مسئلہ۱۸۳۳۔ جس کے کئی کاروبارہیں، مثلاجائیداد کاکرایہ خریدوفروخت اورزراعت بھی کرتاہے توہرکاروبارکے منافع کاحساب ایک ساتھ کرے اوراگر اس میں نفع ہواہے تواس کاخمس دے اوراگرایک کاروبارسے نفع حاصل کرے اوردوسرے سے نقصان اٹھائے تواحتیاط واجب کی بناپر جونفع حاصل کیاہے اس کاخمس اداکرے، لیکن اگراس کے یہاں دوقسم کی تجارت ہوتواس صورت میں ایک تجارت کانقصان کاتدارک دوسری تجارت کے نفع سے کرسکتاہے۔ مسئلہ۱۸۳۴۔ انسان جواخراجات فائدہ حاصل کرنے کے لئے کرے، مثلا دلالی اورباربرداری وغیرہ کے سلسلے میں جوکچھ خرچ کرے توان مصارف کواخراجات میں شمارکرناچاہئے۔ مسئلہ ۱۸۳۵۔ ضروریات زندگی پرخمس نہیں ہے، یعنی انسان اپنے سالانہ اخراجات مثلاکھانا،لباس، مکان، گھریلوسامان، شادی بیاہ، لڑکی کاجہیز، زیارت، بخشش، عطیہ، مہمان داری وغیرہ پرجوآمدنی خرچ کرتاہے اگراس کی شان سے زیادہ نہیں ہے اوروقت حاجت آپہنچاہے اورفضول خرچی بھی نہ کی ہوتوان مصارف کاخمس نہیں ہے۔ مسئلہ۱۸۳۶۔ جن اموال کوانسان نذراورکفارہ وغیرہ میں خرچ کرتاہے وہ سالانہ اخراجات میں شمارہوتے ہیں، اسی طرح جومال دوسروں کودیتاہے یاانعام دیتاہے اگراس کی شان سے زیادہ نہیں ہے توسالانہ اخراجات میں شمارہوگا۔ مسئلہ ۱۸۳۷۔ اگرانسان بیٹی کاجہیز اکھٹاتیارنہ کرسکتاہواورمجبورہوکہ ہرسال تھوڑا تھوڑا کرکے اکھٹاکرے، یاایسے شہرمیں ہوجہاں معمول یہ ہے کہ ہرسال جہیزکے کچھ مقدار تیارکرتے ہیں، اوراس کے مہیاکرنے کی ضرورت ہوتواگردرمیان سال اس سال کے منافع سے جہیزخریدے تواس پرخمس واجب نہیں ہوگالیکن اگراس سال کے منافع سے آئندہ سال جہیزتیارکرے توخمس واجب ہوگا۔ مسئلہ ۱۸۳۹۔ جومال حج یادوسری زیارات کے سفرپرخرج کرے اگروہ مال سواری کی طرح ہوکہ جس کی عین باقی رہ جاتی ہے اوراس کی منفعت سے استفادہ کیاجاتاہے تووہ اس سال کے مخارج میں شمارہوگا کہ جس سال میں سفرکی ابتداء کی ہے اگرچہ اس کاسفرآئندہ سال کے کچھ حصہ تک طوالت پکڑجائے، ہاں اگروہ مال خوراک کی طرح ہوکہ استعمال کرنے سے ختم ہوجاتاہے تواس مقدارکاخمس دے جوبعدوالے سال میں واقع ہواہے۔ مسئلہ۱۸۴۰۔ کسب وتجارت سے مال حاصل کرنے والے کے پاس اگرکوئی دوسرا ایسامال بھی ہوجس کاخمس واجب نہیں ہواکرتا، تووہ شخص اپنے سال بھر کے خرچ کاحساب صرف کسب کے منافع سے کرسکتاہے۔ مسئلہ۱۸۴۱۔ اگرمنفعت کسب سے کھانے پینے کی جوچیزیں سال بھر کے لئے خریدی ہیں سال کے آخرمیں بچ جائیں توان کاخمس دے اوراگران کی قیمت اوررقم دینا ہے اگرسال کی قیمت کوحساب کرناہوگا۔ مسئلہ۱۸۴۲۔ اگرکاروباری نفع سے خمس دینے سے پہلے کوئی گھریلوسامان خریدے تواگردوران سال سے اس کی احتیاج برطرف ہوجائے اس پرواجب ہے کہ اس کاخمس دے اوریہی حکم ہے زیورات وغیرہ کااگراثناء سال ان زیورات سے تزین کاوقت گزرجائے مسئلہ۱۸۴۳۔ اگرکسی سال اسے نفع حاصل نہیں ہواتواس سال کے اخراجات آنے والے سال کے منافع سے کم نہیں کرسکتا۔ مسئلہ۱۸۴۴۔ اگرابتداء سال میں کوئی نفع نہیں ہوااوراصل پونجی سے خرچ کرتارہااورسال پوراہونے سے پہلے نفع حاصل ہواتوجتنی مقدارسرمایہ سے صرف کی ہے اس کومنافع سے پوراکرسکتاہے۔ مسئلہ۱۸۴۵۔ اگرایک کاروبار کے اصل سرمایہ کاکچھ حصہ بغیرکوتاہی کے تلف ہوجائے یانقصان کی وجہ سے کم ہوجائے اوربقیہ سے نفع کمائے جوکہ سال کے خرچ سے بچ جائے توجتنی مقدارسرمایہ سے کم ہوئی ہے وہ منافع سے لے سکتاہے۔ مسئلہ۱۸۴۶۔ اگرسرمایہ کے علاوہ کوئی اورچیزتلف ہوجائے تووہ اس نفع سے وہ چیزنہیں حاصل کرسکتا، البتہ اگراسی سال اس چیزکی ضرورت آپڑے توپھر دوران سال کاروبار کے منافع سے اس کوحاصل کرسکتاہے۔ مسئلہ۱۸۴۷۔ اگرابتداء سال میں اپنے اخراجات کے لئے قرض لے اورسال پوراہونے سے پہلے نفع حاصل کرے توقرض کے مقدارکواس نفع سے کم نہیں کرسکتاہے۔ مسئلہ۱۸۴۸۔ اگرسال بھرنفع نہ ہواوراپنے اخراجات کے لئے قرض لیتارہاتوآئندہ سالوں کے منافع سے اپناقرض ادانہیں کرسکتا، ہاں اس صورت میں اورگزشتہ مسئلہ کی صورت میں وہ اس قرض کوسال کے دوران کے منافع سے اداکرسکتاہے اورمنافع کی اس مقدارسے خمس کاکوئی تعلق نہیں ہے۔
مسئلہ۱۸۴۹۔ اگرمال میں زیادتی کے لئے یاایسی جائیداد خریدنے کے لئے جس کی ضرورت نہیں ہے قرض کرلے توکاروبارکے نفع سے اس قرض کوادانہیں کرسکتا لیکن اگر قرض پرلیاہوامال اس قرض سے خریدی ہوئی چیزتلف ہوجائے توپھرکاروبار کے نفع سے اس قرض کواداکرسکتاہے جبکہ قرض کواداکرنے پرمجبور ہو۔ مسئلہ ۱۸۵۰۔ انسان کے لئے جائزہے کہ ہرچیزکاخمس اسی چیزسے اداکرے یاخمس کے مقدارقیمت اداکرے، لیکن دوسری چیزسے پہلی والی چیزکاخمس دینا حاکم شرع کی اجازت سے ہوناچاہئے ورنہ اس میں اشکال ہے۔ مسئلہ۱۸۵۱۔ جب تک کسی مال کاخمس ادانہ کرے اس مال میں تصرف نہیں کرسکتااگرچہ خمس دینے کاارادہ رکھتاہو۔ مسئلہ۱۸۵۲۔ جس شخص کوخمس دیناہے اس کے لئے جائزنہیں ہے کہ خمس اپنے ذمے لے لے، یعنی اپنے کوخمس لینے والوں کامقروض جان لے اوراس مال میں تصرف کرنا شروع کردے اوراگراس نے تصرف کیااورمال تلف ہوگیاتواسے خمس دیناپڑے گا۔ مسئلہ۱۸۵۳۔ جس کوخمس دیناہے اگرحاکم شرع سے مصالحت کرلے توپھرپورے مال مین تصرف کرسکتاہے ، اورمصالحت کے بعد جونفع حاصل ہووہ اس کا اپناہوگا۔ مسئلہ۱۸۵۴۔ اگردوآدمی آپس میں شریک ہوں اورایک اپنے منافع سے خمس نکالتاہواوردوسرانہ نکالے اورسال بعدمیں اس مال کو جس کاخمس نہیں دیاگیاہے اپنے شریک کے ساتھ کاروبارمیں شرکت کے لئے سرمایہ قراردے توان مین سے کوئی بھی اس مال میں تصرف نہیں کرسکتا۔ مسئلہ۱۸۵۵۔ اگرکسی چھوٹے بچے کے سرمایہ تھا اوراس سے نفع حاصل ہواتواس کے ولی پرواجب ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے اس کاخمس اداکرے۔ مسئلہ۱۸۵۶۔ جس مال کے بارے میں یقین ہوکہ اس کاخمس نہیں دیاگیااس میں تصرف نہیں کیاجاسکتاہے، لیکن جس مال کے بارے میں شک ہوکہ اس کاخمس دیاگیاہے یانہیں اس میں تصرف کرناجائزہے۔ مسئلہ۱۸۵۷۔ جس شخص نے ابتداء تکلیف سے خمس ادانہیں کیااگروہ کوئی جائیدادخریدے اوراس کی قیمت بڑھ جائے تواگراس نے جائیدادکواس مقصدکے لئے نہ خریداہوکہ اس کی قیمت زیادہ ہوجائے تواسے بیچ ڈالوں گا، مثلا اس نے کوئی زمین زراعت کے لئے خریدی تھی اگربیچنے والے کو وہ رقم دی ہے کہ جس کاخمس ادانہیں کیااوراس سے کہاکہ یہ جائیداداس رقم سے خریدرہاہوں، تواگرحاکم شرع اس معاملہ کی اجازت دے تومعاملہ صحیح ہے اورخریدی جانے والی قیمت کاخمس اداکرناچاہئے۔ مسئلہ۱۸۵۸۔ جس شخص نے ابتداء تکلیف سے خمس ادانہیں کیااگروہ کاروباری نفع سے کوئی ایسے چیزخریدے کہ جس کی اسے ضرورت نہ ہواوراس کے خریدکے بعد ایک سال گزرجائے تواس کاخمس اداکرے اوراگرگھرکاسامان یاکوئی اورچیزخریدے کہ جس کی اسے ضرورت ہے اوراپنی شان کے بھی مطابق ہے خریداہو، تواگراسے معلوم ہے کہ میںنے اس سال کے درمیان کے منافع سے خریداہے تواس کے خمس دینے کی ضرورت نہیں ہے، اوراگر یہ معلوم نہ ہوکہ دوران سال خریداہے یاسال ختم ہونے کے بعدتواحتیاط واجب یہ ہے کہ حاکم شرع کے ساتھ مصالحت کرے۔ ۲۔ معدن (کان)مسئلہ۱۸۵۹۔ اگرسونایاچاندی، پیتل، تانبا، مٹی کاتیل، پھٹکری، کوئلہ، فیروزہ، عقیق ،نمک یااس قسم کی دوسری چیزوں کی کان سے کوئی چیزاس کے ہاتھ آجائے، بشرطیکہ وہ بمقدارنصاب ہوتواس کاخمس دیناپڑے گا۔ مسئلہ۱۸۶۰۔ کان کانصاب احتیاط کی بناپرایک سوپانچ مثقال چاندی یاپندرہ مثقال سوناہے اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ اخراجات وغیرہ کم کرنے سے پہلے نصاب کاحساب کیاجائے، البتہ وہ مقدارجس کاخمس اداکرناہے اس سے اخراجات کم کرنے کے بعداداکیاجائے گا۔ مسئلہ۱۸۶۱۔ جوفائدہ کان سے حاصل کیاگیاہے اگراس کی قیمت پندرہ مثقال سونے کے برابرنہ ہوتواس کاخمس اس صورت میں واجب ہے جب صرف یہ مال یادوسرے کاروبار کی منفعت کرنے کامجموعہ اس کے مصارف سال سے بڑھ جائے۔ مسئلہ ۱۸۶۲۔ گچ،چونا، نمکین مٹی، اورسرخ مٹی احتیاط واجب کی بناپرمعدنی چیزوں سے شمارہوتے ہیں اوران کاخمس دیناہوگا۔ مسئلہ۱۸۶۳۔ جس کوکان سے کوئی چیزحاصل ہوئی ہواس کاخمس اداکرناچاہئے، چاہے کان زمین کے اوپرہویانیچے، چاہے ایسی زمین میں ہوجوکسی کی ملکیت ہے یاجس کاکوئی مالک نہ ہو۔ مسئلہ۱۸۶۴۔ اگریہ معلوم نہ ہوکہ جوچیزیں میں نے کان سے نکالی ہے نصاب کے برابرہے یانہیں تواحتیاط واجب یہ ہے کہ وزن کرنے سے یاکسی اورطریقہ سے اس کی قیمت معلوم کرلے۔ مسئلہ۱۸۶۵۔ اگرچندآدمی کوئی چیزکان سے نکالیں تووہ اخراجات جواس کوحاصل کرنے کے لئے ہوئے ہیں انہیں نکالنے کے بعداگرہرایک کاحصہ نصاب کے برابرہے توان کواس کاخمس دیناچاہئے۔ مسئلہ۱۸۶۶۔ اگرایسی کان سے کچھ نکالے جوکسی کی ملک میں ہواوراس کی اجازت نہ ہوتوجوکچھ ہاتھ آئے گاوہ مالک زمین کاہے اورچونکہ مالک نے اس کے نکالنے پرکچھ خرچ نہیں کیالہذا تمام اس چیزکاخمس اداکرے جوکہ کان سے نکلی ہے۔ مسئلہ۱۸۶۷۔ اجرت پرکانیں نکلواناجائزہے اوراجرت دینے والااس کامالک ہوگابشرطیکہ اجرت دینے والاخاص طورسے اوراسی مقصدکے لئے مقررکیاگیا ہویاجتنی منافع ہوگی سب اجرت دینے والاکے لئے ہو، لیکن اگراجرت دینے والابطورمطلق اجیرہوتواگروہ اس سے قصدتملک کرے، اس شئی کامالک ہوجائے گا۔ مسئلہ۱۸۶۸۔ اگرکان ایسی آبادزمین سے ہوں جس کومسلمانوں نے اپنی طاقت اورقوت سے حاصل کیاہوجیسے ایران اورعراق کی اکثرزمینیں، تواگر کوئی مسلمان ان زمینوں سے کوئی کان نکالے تووہ اس کامالک ہوگااوراس کاخمس اداکرے لیکن اگرغیرمسلم نکالے اس کامالک نہیں ہوگا، اسی طرح اگرکوئی کافر ایسی زمین سے کان نکالے کہ جومسلمانوں کے فتح کے موقع پربنجرزمین ہوتوبھی اس کامالک نہیں ہوگا۔ ۳۔ گنج (خزانہ)مسئلہ۱۸۶۹۔ خزانہ وہ مال ہے جوزمین، پہاڑیادیوارمیں چھپاہواہواورکوئی اسے پالے اوروہ اس طرح ہوکہ اسے گنج (خزانہ) کہاجاسکے۔ مسئلہ۱۸۷۰۔ اگرانسان کسی ایسی زمین میں سے خزانہ حاصل کرے جوکسی کی ملکیت نہیں تووہ اس کااپنامال ہوگا اوراس کاخمس دیناپڑئے گا۔ مسئلہ۱۸۷۱۔ خزانہ کانصاب احتیاط کی بناپرایک سوپانچ مثقال چاندی یاپندرہ مثقال سوناہے، یعنی اگراس چیزکی قیمت جوخزانہ سے ملی ہے ان اخراجات کے بعدجواسے حاصل کرنے میں کئے گئے ہیں پندرہ مثقال (۶تولہ) سونے کے برابرہوتواس کاخمس دے۔ مسئلہ۱۸۷۲۔ اگرایسی زمین میں جوکسی شخص سے خریدی ہے کوئی خزانہ مال جائے اوراسے یہ معلوم ہوکہ ان لوگوں کامال نہیں جومجھ سے پہلے اس کامالک تھے تویہ اس کااپناہی مال ہوگا اوراسے اس کاخمس دیناپڑئے گا لیکن اگریہ احتمال ہوکہ ان میں سے کسی ایک کاہے تواس کااطلاع دے اب اگریہ معلوم ہوجائے کہ اس کامال نہیں تواس سے پہلے والے مالک کواطلاع دے اوراحتیاط واجب کی بناء پراسی ترتیب سے سب لوگوں کومطلع کرے جواس سے پہلے اس زمین کے مالک تھے، اب اگرمعلوم ہوکہ ان میں سے کسی کامال نہیں ہے تواپناہی مال سمجھ کر اس کاخمس اداکرے۔ مسئلہ۱۸۷۳۔ اگرمتعدد برتنوں میں سے جوکہ ایک جگہ دفن ہیں کچھ مال ملے کہ جس کی مجموعی قیمت پندرہ مثقال سوناہوتواس کاخمس اداکرے، البتہ اگر چند جگہوں سے خزانہ حاصل ہوتوا ن میں سے جس کی قیمت اس مقدارکے برابرہوتواس کاخمس دے اورجس کی قیمت اس مقدارکونہ پہنچے اس پرکوئی خمس نہیں۔ مسئلہ۱۸۷۴۔ اگردوآدمیوں کوخزانہ ملے کہ ان میں سے ہرایک کے حصے کی قیمت پندرہ مثقال سوناہوتودونوں کوخمس اداکرناچاہئے۔ مسئلہ۱۸۷۵۔ اگرکوئی شخص ایک جانورخریدے اوراس کے پیٹ سے کوئی مال ملے تواگریہ احتمال ہوکہ یہ بیچنے والے کامال ہے تواسے اطلاع سے اوراگر معلوم ہوجائے کہ اس کی ملکیت نہیں تواحتیاط واجب کی بناپرترتیب واراورپہلے مالکوں کواطلاع دے، اب اگرمعلوم ہوجائے کہ ان میں سے کسی کی ملکیت نہیں تواحتیاط واجب کی بناپراس کاخمس دیناچاہئے اگرچہ نصاب سے کم ہو، لیکن اگرمچھلی خریدے اوراس کے پیٹ سے جواہرات ملیں تووہ اس کااپنامال ہوگا اورکسی کواطلاع دینے کی ضرورت نہیں ہے اوراحتیاط واجب ہے کہ اس کاخمس اداکرے۔ ۴۔ مال حلال مخلوط بہ حراممسئلہ ۱۸۷۶۔ اگرحلال مال حرام کے ساتھ اس طرح مال جائے کہ انسان ان میں سے ایک کودوسرے سے تمیزنہ کرسکے ا ورمالک مال حرام اوراس کی مقدار بھی معلوم نہ ہوتوپورے مال کاخمس دیناچاہئے اورخمس دینے کے بعد باقی مال بھی حلال ہوجائے گا، اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ اس خمس کومافی الذمہ کی نیت سے مالک کی طرف سے اداکرے۔ مسئلہ۱۸۷۷۔ اگرحلال مال حرام سے مل جائے اورانسان کوحرام کی مقدارمعلوم ہولیکن اس کے مالک کونہ پہچانتاہوتواتنی مقدارکومالک کی طرف سے بطور صدقہ دیدے اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ حاکم شرع سے اس کی اجازت بھی لے۔ اگرحلال مال حرام سے مل جائے اورانسان کوحرام کی مقدارمعلوم نہ ہولیکن مالک کوپہچانتاہوتوایک دوسرے کوراضی کریں، اگرصاحب مال راضی نہ ہوتواگر انسان کومعلوم ہوکہ یہ معین چیزتواس کی ملکیت ہے لیکن اس سے زیادہ بھی اس کی ملکیت ہے کہ نہیں مشکوک ہوتوجس مقدارکایقین ہووہ اس کودیدے اوراحتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ زیادہ مقدارجس کی متعلق احتمال ہے کہ اس کی ملکیت ہے وہ بھی اس کودیدے۔ مسئلہ۱۸۷۸۔ اگراس حلال مال کاخمس جوحرام سے ملاہواہے دیدے اوربعدمیں اسے معلوم ہوکہ حرام کی مقدارخمس سے زیادہ تھی تواحتیاط مستحب یہ ہے کہ جتنی مقدارکے متعلق علم ہے کہ یہ خمس سے زیادہ ہے اس کومالک کی طرف سے بطورصدقہ دیدے۔ مسئلہ۱۸۷۹۔ اگرمال حلال جومال حرام سے ملاہواہے اس کاخمس دیدے اس کے بعدمالک مل جائے تواس کاضامن نہیں ہوگا، لیکن اگراس مال کوجس کے مالک کونہیں پہچانتاتھامالک کی طرف سے صدقہ دیدے اس کے بعدمالک مل جائے تواس کاضامن ہے اوراتنی مقداراسے دیناچاہئے۔ مسئلہ۱۸۸۰۔ اگرمال حلال حرام سے مل جائے اورحرام کی مقدارمعلوم ہواورانسان کویہ علم ہوکہ اس کامالک ان چندمعین اشخاص میں سے کوئی ایک ہے لیکن اس کاتعین نہ ہوسکے تواس کوقرعہ اندازی کرنی چاہئے جس کانام نکلامال اسی کودیدے۔ ۵۔ غوطہ خوری سے حاصل ہونے والے جواہراتمسئلہ۱۸۸۱۔ غوطہ خوری کے ذریعہ سمندرسے جوموتی، مونگے وغیرہ نکلتے ہیں ان کاخمس دیناواجب ہے، چاہے نکالی ہوئی چیزاگنے والی ہویامعدنی تواگر باہرنکالنے کے اخراجات کم کرنے کے بعداس کی قیمت اٹھارہ نخودچنے کے دانے کے برابرسوناہوتواس کاخمس دیاجائے چاہے ایک ہی دفعہ اسے دریاسے نکالا گیاہویاکئی مرتبہ اورجوکچھ نکالاہے وہ ایک جنس سے ہویامختلف سے، البتہ اگرچندافرادنکالیں توجس کے حصے کی قیمت اٹھارہ نخودسوناہے صرف اس کوخمس دینا پڑے گا۔ مسئلہ۱۸۸۲۔ اگردریامیں غوطہ لگانے کے بغیرکسی اورذریعہ سے جواہرات کوباہرنکالے اوراخراجات کم کرنے کے بعدان کی قیمت اٹھارہ نخودسونے کے برابر ہوتواحتیاط مستحب ہے کہ اس کاخمس دے، لیکن اگردریاکے اوپریاکنارہ سے جواہرات حاصل کرے تواس صورت میں خمس دیناپڑے گاجب کہ یہ کام اس کاشغل ہواورصرف اسی کام سے یادوسری منافع کے ساتھ سال بھرکے اخراجات سے زیادہ ہو۔ مسئلہ ۱۸۸۳۔ مچھلی اوراس قسم کے دوسرے حیوانات جن کوبغیرغوطہ خوری کے دریاحاصل کیاجاتاہے ان پرصرف اس صورت میں خمس واجب ہوگا جب ان کوکاروبار کے لئے حاصل کیاجائے اورصرف اس کام کے منافع یادوسرے کسب کے منافع کے ساتھ ملاکرسال بھرکے خرچ سے زیادہ ہو۔ مسئلہ۱۸۸۴۔ اگرانسان بغیراس ارادہ کے کہ وہ دریاسے کوئی چیزنکالے دریامیں غوطہ لگائے اوراتفاق سے کچھ جواہرات اس کے ہاتھ آجائے تواگر ملکیت کا قصدکرے اس کاخمس اداکرے۔ مسئلہ ۱۸۸۵۔ اگرانسان دریامیں غوطہ لگائے اورکوئی جانورباہرنکالے اوراس کے پیٹ سے کوئی موتی نکال آئے جس کی قیمت اٹھارہ نخود سونایااس سے زیادہ ہوتواگر وہ جانورصدف جیساہوکہ جس کے شکم میں عموماموتی ہوتی ہے تواس خمس دے اوراگراتفاقااس جانورنے جوہرنکلاہوتواحتیاط واجب یہ ہے کہ اس کاخمس دیاجائے۔ مسئلہ۱۸۸۶۔ اگردجلہ وفرات جیسے بڑے بڑے دریاؤں میں غوطہ لگاکرجواہرات نکالے تواگروہ دریاایسے ہیں کہ جن میں جواہرات بناکرتے ہیں تب اس کاخمس نکالناچاہئے۔ مسئلہ۱۸۸۷۔ اگرپانی میں غوطہ لگائے اورکچھ عنبرنکالے کہ جس کی قیمت اٹھارہ نخودسوناسے زیادہ ہوتواس کاخمس دے اوراگرپانی کی سطح یاکنارہ سے اس کے ہاتھ آئے توچاہے اس کی قیمت اٹھارہ نخودسونا بھی نہ ہوتوبنابراحتیاط واجب اس کاخمس دے۔ مسئلہ۱۸۸۸۔ جس شخص کاکاروبارغوطہ لگانایاکانیں نکالناہے اگروہ اس کاخمس اداکرے اورپھراس کے سال کے خرچہ سے بھی کچھ بچ جائے توضروری نہیں کہ دوبارہ اس کاخمس اداکرے۔ ۶۔ مال غنیمتمسئلہ۱۸۸۹۔ اگرمسلمان بحکم امام علیہ السلام کفارسے جنگ کریں توجوبھی چیزاس جنگ میں ان کے ہاتھ آئے اس کومال غنیمت کہاجاتاہے اورجواخراجات اس غنیمت کے لئے کئے گئے ہیں، جیسے حفاظت، حمل ونقل وغیرہ میں جوصرف ہواہے اوروہ مقدارجسے امام مناسب سمجھتے ہوئے صرف فرمائیں اوروہ چیزیں جوصرف ا مام ہی سے مخصوص ہیں ان سب چیزوں کومال غنیمت سے الک کرکے بقیہ مال کاخمس نکالناچاہئے۔ ۷۔ کافرذمی جوزمین مسلمان سے خریدے۔مسئلہ۱۸۹۰۔ اگرکافرذمی کسی مسلمان سے کوئی زمین خریدے تواس کاخمس اسی زمین سے اداکرے یااس کی قیمت دے(اس کے علاوہ اگرکوئی مال دیناچاہے حاکم شرع کی اجازت سے ہوناچاہئے) اوراسی طرح اگرمکان، دوکان اوراس قسم کی کوئی چیزکسی مسلمان سے خریدے تواگرزمین کی قیمت الگ کرکے بیچاگیاہوتواس زمین کاخمس دے اوراگرگھر، دوکان کواکھٹابیچے اورزمین اس کے ضمن میں قصدقربت ضروری نہیں ہے، بلکہ حاکم شرع بھی جب یہ خمس لے رہاہوتواس کے لئے ضروری نہیں کہ قصدقربت کرے۔ مسئلہ۱۸۹۱۔ کافرذمی جوزمین کسی مسلمان سے خریدے چاہے اس کوکسی دوسرے مسلمان ہی کے ہاتھ بیچے پھربھی اس کوزمین کاخمس دیناپڑئے گا، اورکافر ذمی مرجائے اوریہ زمین کسی مسلمان کواس کے ترکہ میں سے ملے تواس کاخمس اسی زمین سے یااس کے اورمال سے اداکرے۔ مسئلہ۱۸۹۲۔ اگرکافرذمی زمین خریدتے وقت شرط کرے کہ اس کاخمس نہیں دے گایایہ شرط کرے کہ اس کاخمس بیچنے والادے گاتواس کی شرط صحیح نہیں اوراس کاخمس اداکرناچاہئے، البتہ اگریہ شرط کرے کہ بیچنے والاخمس کی مقدارکافرذمی کی طرف سے خمس لینے والوں کواداکرے تواس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ مسئلہ۱۸۹۳۔ اگرمسلمان کوئی زمین خریدوفروخت کے بغیرکافرکی ملک قراردے اوراس کاعوض لے لے، مثلااس کے ساتھ مصالحت کرے توکافرذمی کواس کاخمس دیناچاہئے۔ مسئلہ۱۸۹۴۔ اگرکافرذمی بچہ ہواوراس کاولی اس کے لئے زمین خریدے یااس کووراثت میں ملے تواس کے ولی پرلازم ہے کہ اس کاخمس اس زمین سے دے یااس کی قیمت اداکرے۔ خمس کامصرفمسئلہ۱۸۹۵۔ خمس کودوحصوں میں تقسیم کیاجائے ، ایک حصہ سہم سادات ہے اوراحتیاط واجب کی بناپراس کومجتہدجامع الشرائط کی اجازت سے فقیرسیدیا یتیم سیدیااس سیدکودیاجائے جوسفرمیں بے خرچ ہوجائے، اوردوسرا آدھاحصہ سہم امام علیہ السلام ہے جواس زمانہ میں مجتہدجامع الشرائط کودیاجائے یاایسے مصرف میں صرف کیاجائے کہ جس کی اجازت وہ مجتہددیدے، لیکن اگرانسان سہم امام دوسرے مجتہدکودیناچاہے جس کی تقلید نہیں کرتاتواس صورت میں صرف اجازت ہے کہ دنوں مجتہدسہم امام کوایک ہی طریقہ پرخرچ کرتے ہوں۔ مسئلہ ۱۸۹۶۔ جس یتیم سیدکوخمس دیناچاہیں اس کافقیرہوناشرط ہے، البتہ اگرکوئی سیدسفرمیں تنگ دست اورپریشان ہوتواس کوخمس دیاجاسکتاہے چاہے وہ اپنے وطن میں فقیرنہ بھی ہو۔ مسئلہ۱۸۹۷۔ وہ سیدجوسفرمیں بے خرچ ہوگیاہے اگراس کاسفر،سفر معصیت ہوتواس کوخمس نہ دیاجائے۔ مسئلہ۱۸۹۸۔ جوسیدعادل نہیں ہے اسے خمس دیاجاسکتاہے، البتہ وہ سیدجواثناعشری نہ ہواس کوخمس نہیں دیناچاہئے۔ مسئلہ۱۸۹۹۔ اگرگناہ کارسیدکوخمس دینامعصیت میں تقویت کاسبب بنتاہوتواسے خمس نہیں دیاجاسکتا، اسی طرح اس سیدکوجوکھلم کھلاگناہ کرتاہے خمس نہیں دینا چاہئے چاہے اس کی معصیت میں تقویت کاسبب بھی نہ بنتاہو۔ مسئلہ۱۹۰۰۔ اگرکوئی کہتاہے کہ میں سیدہوں تواسے خمس نہیں دیاجاسکتاجب تک دوعادل اس کے سیدہونے کی تصدیق نہ کریں یالوگوں کے درمیان اس طرح معروف ہوکہ انسان کویقین یااطمینان پیداہوجائے کہ سیدہے۔ مسئلہ۱۹۰۱۔ جوشخص اپنے شہرمیں سیدمشہورہے تواگرچہ کسی انسان کواس کے سیدہونے کایقین نہ ہولیکن وثوق اور اطمینان ہوتب بھی اسے خمس دے سکتاہے۔ مسئلہ۱۹۰۲۔ جس کی بیوی سیدانی ہوتواحتیاط واجب یہ ہے کہ وہ اس کواپناخمس نہ دے جب کہ وہ اسے اپنے مصارف میں صرف کرے، البتہ اگرسیدانی کے دوسرے ایسی اخراجات ہوجواس کے شوہرپرواجب نہ ہوں توپھرجائزہے کہ شوہراس عورت کواپناخمس دے تاکہ وہ ان پرصرف کرے۔ مسئلہ۱۹۰۳۔ اگرکسی سیدانی کے اخراجات کسی پرواجب ہوں اوروہ اس کی بیوی نہ ہوتواحتیاط واجب ہے کہ وہ خمس سے اس کی خوراک وپوشاک نہیں دے سکتا، البتہ اگرکچھ خمس کی رقم اس سیدانی کی ملکیت کردے کہ وہ انہیں دوسرے اخراجات میں صرف کرے جوکہ خمس دینے والے پرواجب نہیں ہیں تواس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مسئلہ۱۹۰۴۔ جس فقیرسیدکے اخراجات کسی دوسرے شخص پرواجب ہیں اوروہ اس سیدکے اخراجات نہیں دے سکتاتواس سیدکوخمس دیاجاسکتاہے۔ مسئلہ۱۹۰۵۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ ایک سال کے اخراجات سے زیادہ کسی فقیرسیدکوخمس نہ دیاجائے۔ مسئلہ۱۹۰۶۔ اگرکسی کے شہرمیں کوئی سیدمستحق نہ ہواوریہ احتمال بھی نہیں رکھتاکہ کوئی یہاں مل جائے گایاخمس کی رقم کامحفوظ رکھنامستحق کے ملنے تک ممکن نہ ہو تووہ خمس کسی دوسرے شہرمیں لے جائے اورمستحق تک پہچائے اورخمس کے دوسرے شہرمیں لے جانے کے اخراجات خمس میں سے لے سکتاہے اوراگرخمس تلف ہوجائے تواگراس کے حفاظت میں اس نے کوتاہی کی ہے تواس کاعوض دے اوراگرکوتاہی نہیں کی توپھراس پرکوئی چیزواجب نہیں ہے۔ مسئلہ۱۹۰۷۔ اگراپنے شہرمیں کوئی مستحق نہیں لیکن احتمال دیتاہے کہ شایدکوئی مل جائے تواگرچہ مستحق کے ملنے تک خمس کی حفاظت ممکن ہوتوبھی خمس دوسرے شہرمیں لے جاسکتاہے اب اگرخمس کی حفاظت میں کوتاہی نہیں کی اوروہ تلف ہوگیاتواس کوکچھ نہیں دیناہوگا، البتہ خمس کے لے جانے کاخرچہ خمس سے نہیں لے سکتا۔ مسئلہ۱۹۰۸۔ اگراپنے شہرمیں مستحق مل جائے توبھی خمس دوسرے شہر میں لے جاسکتاہے اوروہاں کسی مستحق کودے سکتاہے، البتہ لے جانے کاخرچہ خود ادا کرے گا اوراگرخمس تلف ہوجائے تواگرچہ اس کی حفاظت میں کوتاہی بھی نہ کی ہوتب بھی وہ ضامن ہے۔ مسئلہ۱۹۰۹۔ اگرحاکم شرع کی اجازت سے خمس دوسرے شہرلے جائے اوروہ تلف ہوجائے توپھردوبارہ خمس دینے کی ضرورت نہیں، اوریہی حکم ہے اگرکسی ایسے شخص کودے جوحاکم شرع کی طرف سے خمس لینے میں وکیل ہے اوروہ اس شہرسے دوسرے شہرکی طرف لے جائے۔ مسئلہ۱۹۱۰۔ اگرخمس اس مال سے نہ دے، بلکہ حاکم شرع کی اجازت سے کسی دوسری چیزسے اداکرے تواس شئے کی واقعی قیمت کاحساب لگائے، اب اگر قیمت سے زیادہ حساب کیاہے اورمستحق اس قیمت پرراضی ہوجائے تب بھی جتنی مقدارزیادہ حساب کیاہے وہ اس کودیناپڑے گا۔ مسئلہ ۱۹۱۱۔ اگرکسی شخص کاکسی سید پرقرض ہوتووہ اپنے قرض کوخمس میں سے حساب کرسکتاہے اوربنابراحتیاط واجب وہ خمس اس مستحق کواداکرے اوراس کے بعد مستحق اس سے قرض کوپلٹادے۔ مسئلہ۱۹۱۲۔ مستحق خمس لے کر مالک کونہیں بخش سکتا، اگرکسی کے ذمہ کافی مقدارمیں خمس باقی ہے اوروہ فقیرہوچکاہواوراسے مالدارہونے کی امیدبھی نہ ہواور وہ یہ چاہے کہ مستحقین کامقروض نہ رہے تواگرمستحق راضی ہوجائے کہ خمس اس سے لے کر اسے بخش دے تواس میں کوئی اشکال نہیں۔ مسئلہ۱۹۱۳۔ اگرخمس کوحاکم شرع یااس کے وکیل یاکسی سید سے دست گردانی کرے (یعنی خمس دے کرواپس لے اورارادہ رکھتاہوکہ آئندہ سال اداکرے) تووہ آئندہ سال کے منافع سے وضع نہیں کرسکتاہے، مثلاکوئی شخص دوہزارروپئے بعنوان خمس مقروض ہے اوردوسرے سال کے اخراجات نکال کر بیس ہزار روپئے بچ جاتے ہیں تووہ بیس ہزارکاخمس اداکرے اوردوہزارروپئے جوبعنوان خمس مقروض ہے اپنی باقی ماندہ رقم سے اداکرے۔ |